مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5923
وعن جابر بن سمرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : لا يزال الإسلام عزيزا إلى اثني عشر خليفة كلهم من قريش . وفي رواية : لا يزال أمر الناس ماضيا ما وليهم اثنا عشر رجلا كلهم من قريش . وفي رواية : لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة أو يكون عليهم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش . متفق عليه
قریش میں سے بارہ خلفاء کا ذکر
اور حضرت جابر ابن سمرۃ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اسلام کو بارہ خلفاء تک قوت و غلبہ حاصل رہے گا اور سب قریش میں سے ہوں گے ایک روایت میں یوں ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) لوگوں کے (دینی ومذہبی امور میں استقامت ملی وملکی معاملات میں استحکام اور عام نظم ونسق میں عدل و انصاف اور حق وراستی پر مبنی) نظام کار کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ ان کے حاکم وہ بارہ شخص ہوں گے جن کا تعلق قریش سے ہوگا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ( آپ ﷺ نے فرمایا) دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آئے اور لوگوں پر ان بارہ خلیفہ کی حکومت قائم ہوگی جو قریش میں سے ہوں گے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث کے معنی و مفہوم کے تعین میں مختلف اقوال بھی ہیں اور علماء نے اشکال کا اظہار بھی کیا ہے۔ اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث سے بظاہر جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد متصلا یکے بعد دیگرے بارہ خلفاء ہوں گے جن کے زمانہ خلافت میں دین کا نظام مستحکم و برقرار رہے گا، ان کے وجود سے اسلام کو شان و شوکت حاصل ہوگی اور نہ صرف یہ کہ خود وہ تمام بارہ خلفاء دین و مذہب کے سچے پابند وتابعدار ہوں گے بلکہ ان کی خلافت و عدالت سے حق و انصاف کے مطابق احکام و ہدایات کا اجراء ونفاذ ہوگا حالانکہ تاریخی اور واقعاتی طور پر جو کچھ پیش آیا ہے وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے منصب خلافت وامارت پر فائز ہونے والوں میں بنی مروان میں کہ وہ خلفاء وامراء بھی تھے جو نہ صرف یہ کہ اپنی سیرت اور طور طریقون کے اعتبار سے دین و مذہب سے مناسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی ظالمانہ اور مفسدانہ کاروائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصانات اور مصائب برداشت کرنا پڑے علاوہ ازیں وہ صحیح حدیث بھی ہے جس کے مطابق آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت کا نظام قائم رہے گا اور اس کے بعد ظلم و زیادتی پر مبنی بادشاہت آجائے گی چناچہ تمام علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیس برس کے عرصہ یعنی خلافت راشدہ کے بعد جو نظام حکومت ظاہر ہوا اس کو خلافت نہیں بلکہ بادشاہت وامارت کہنا چاہئے یہ ایک اہم اشکال ہے اور اسی بناء پر علماء کرام نے اس حدیث کی توجیہ و تاویل میں مختلف اقوال پیش کئے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ بارہ خلیفوں سے مراد وہ بارہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے بعد سریر آرائے خلافت اور حکومت و سلطنت ہوئے اور ان کے زمانہ اور اقتداروحکومت میں مسلمانوں کے ظاہری حالات و معاملات اور رعایا کے مفاد کے اعتبار سے سلطلنت و حکومت کا نظام مستحکم ومتوازن رہا اگرچہ ان میں سے بعض برسر اقتدار لوگ ظلم و بےانصافی کے راستہ پر بھی چلے، باہمی اختلاف ونزاع اور خرابیوں کا بھیانک ظہور ولید بن یزید بن عبد الملک بن مروان کے عہد اقتدار میں ہوا جو ان میں بارہواں شخص تھا، اس شخص کی امارت اس وقت قائم ہوئی جب اس کے چچا ہشام ابن عبد الملک کا انتقال ہوا پہلے تو لوگوں نے ولید ابن یزید کی امارت پر اتفاق کیا اور ان کا اتفاق چار برس تک قائم رہا لیکن چار برس کے بعد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو مار ڈالا، اس دن سے صورت حال میں تغیر پیدا ہوگیا اور فتنہ و فساد پوری طرح پھیل گیا یہ قول قاضی عیاض مالکی کی طرف منسوب ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) نے اس قول کی تحسین کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی جتنی توجیہات کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان سب میں یہی قول سب سے زیادہ مناسب اور سب سے زیادہ قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے جو اسی حدیث کے جزء کے طور پر بعض صحیح طرق میں منقول ہیں کہ کلہم یجتمع علیہ امر الناس اور جمع سے مراد ان خلفاء کی بیت پر لوگوں کا اتفاق و اجتماع اور ان کی قیادت وسرداری کو قبول کرنا ہے اگرچہ کراہت کے ساتھ ہو۔ نیز اس حدیث سے ان خلفاء کی جو مدح و توصیف مفہوم ہوتی ہے وہ دین عدالت اور حقانیت کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ سیاسی وانتظامی معاملات میں استحکام واستواری اور حکومت وامارت کے تئیں اتفاق و اتحاد کے اعتبار سے ہے رہی اس صحیح حدیث کی بات جس میں آپ ﷺ نے خلافت کو تیس سال میں منحصر بیان فرمایا ہے تو وہاں خلافت سے مراد خلافت کبریٰ ہے جو اصل میں خلافت نبوت ہے جب کہ اس حدیث میں خلافت امارت مراد ہے چناچہ خلفائے راشدین کے بعد جو امراء (سربراہان حکومت) گذرے ان کو بھی خلیفہ ہی کہا جاتا ہے، اگرچہ ان کو خلیفہ کہنا مجازی معنی کے اعتبار سے ہے مذکورہ بالا پہلے قول کو اگرچہ علامہ ابن حجر نے اولی وارجح قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ لایزال الاسلام عزیزا اور لایزال الدین قائما کے ساتھ یہ قول کھلی ہوئی عدم مناسبت کا حامل ہے کیونکہ یہ الفاظ ان بارہ خلفاء کی اس مدح و تعریف کا صریح مظہر ہیں کہ ان کے زمانہ خلافت وامارت میں دین کو استحکام حاصل رہے گا حق کا بول بالا ہوگا اور ان کے عدل و انصاف کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ خلفاء سے مراد عادل و انصاف پرور خلفاء اور نیک طینت وپاکباز امراء ہیں جو اپنے ذاتی اوصاف حمیدہ کی بناء پر خلافت کا صحیح مصداق اور منصب امارت کے اہل ہوں، اس صورت میں حدیث کا لازمی مطلب یہ بیان کرنا نہیں ہوگا کہ یہ بارہ خلفاء آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے منصب خلافت وامارت پر متمکن ہوں گے جب کہ ہوسکتا ہے کہ اصل مقصد اس طرح کے خلفاء وامراء کی محض تعداد بیان کرنا ہو خواہ ان کا ظہور کسی بھی عہد و زمانہ میں ہو اور بارہ کا عدد قیامت تک کسی وقت جا کر پوراہو تورپشتی کے مطابق اس حدیث اور اس بارے میں منقول دوسری احادیث کے مفہوم ومعنی کے تعین میں یہی قول زیادہ بہتر و مناسب اور قابل ترجیح ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں اس طرح کے ان بارہ خلفاء وامراء کا ذکر مراد ہے جو حضرت مہدی (علیہ السلام) کے زمانہ کے بعد منصب خلافت وامارت پر فائز ہوں گے گویا مخبر صادق ﷺ نے پیش خبری فرمائی کہ آخر زمانہ میں قریش سے نسبی تعلق رکھنے والے ایسے بارہ افراد مسلمانوں کی ملی وملکی اور حکومتی قیادت کے امین بنیں گے جن کے زمانہ اقتدار وامارت میں دین و مذہب کو عروج حاصل ہوگا اور اسلام کی شان و شوکت دوبالا ہوگی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب مہدی کا انتقال ہوگا تو قیادت و اقتدار کے مالک، یکے بعد دیگرے جو پانچ آدمی ہوں گے وہ سبط اکبر یعنی حضرت امام حسن ؓ کی اولاد میں سے ہوں گے، ان کے بعد قیادت و اقتدار کی باگ ڈور یکے بعد دیگرے ان پانچ آدمیوں کے ہاتھ میں آئے گئی جو سبط اصغر حضرت سیدنا حسین ؓ شہید کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان میں آخری شخص اپنا ولی عہد ایسے شخص کو بنائے گا جو حضرت امام حسن ؓ کی اولاد میں ہوگا اور مملکت وملت کی امامت وسربراہی کے سلسلہ کا گیارہواں فرد ہوگا پھر جب یہ گیارہواں شخص اپنا زمانہ اقتدار پورا کرکے انتقال کرے گا تو اس کا جانشین اس کا بیٹا ہوگا اور مسند اقتدار کا مالک بنے گا، اس طرح بارہ کا عدد پورا ہوجائے گا اور ان بارہ میں کا ہر شخص امام عادل اور ہادی مہدی ہوگا جس کی عدالت انصاف پسندی، دینداری اور رعایا سے اسلام اور مسلمانوں کو زبردست شان و شوکت اور سربلندی وہردلعزیزی حاصل ہوگی اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر مذکورہ بالا دوسرے قول کو ایک معقول اور بہترین توجیہ قرار دیا جاسکتا ہے ویسے ایک روایت حضرت ابن عباس ؓ کی بھی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی کے اوصاف و محاسن بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (امام مہدی) کے وجود سے ہر رنج وفکر کو دور کر دے گا اور ان کے عدل وفتنہ کا سد باب ہوجائے گا ان کے زمانہ کے بعد پھر قیادت و اقتدار کی باگ ڈور ان بارہ آدمیوں کے ہاتھ میں آجائے گی جو یکے بعد دیگرے ڈیڑھ سو سال تک مملکت کی زمام کار سنبھالے رہیں گے۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اصل مراد ایک ہی زمانہ میں بارہ خلفاء کا پایا جانا ہے جو اپنی اپنی جگہ خود مختیار حیثیت کا دعوی کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کی اطاعت کرنے والے لوگوں کا الگ الگ گروہ ہوگا اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ (ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا) وہ وقت آنے والا ہے جب میرے بعد خلیفہ ہوں گے اور بہت ہونگے اس ارشاد گرامی سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد یہ خبر دینا تھا کہ میرے بعد نت نئے فتنوں کا ظہور ہوگا اور طرح طرح کے اختلافی ونزاعی معاملات اٹھ کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ایک زمانہ میں بارہ خلفاء اپنی الگ الگ خلافت کا دعویٰ کریں گے اس آخری قول کے مطابق حدیث کی مراد گویا یہ ہوگی کہ بیک وقت بارہ خلفاء کے وجود کے زمانہ سے پہلے کے زمانہ تک تو مسلمانوں کی موثر اجتماعی وتنظیمی حیثیت برقرار رہے گی دین کا نظام مستحکم و استوار رہے گا اور اسلام کی عزت و شوکت بڑھتی رہے گی لیکن اس زمانہ میں (جب کہ بیک وقت بارہ خلفاء ہوں گے) اختلاف ونزاع کا فتنہ پھوٹ پڑے گا اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی منتشر ہونے لگے گی۔ لیکن پہلے اقوال کے مطابق حدیث کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بارہ خلفاء کے زمانہ تک اسلام اور مسلمانوں کا نظام ملک وملت مستحکم و استوار رہے گا اس نظام میں جو خلل و اضطراب پیدا ہوگا وہ اس زمانہ کے بعد ہوگا۔ شیعوں نے اس حدیث میں بارہ خلفاء کے ذکر کو اس پر محمول ومنطبق کیا ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہوں گے خواہ وہ منصب خلافت پر حقیقۃ فائز ہوں خواہ خلافت کا استحقاق رکھنے کے باوجود منصب خلافت پر فائز نہ ہوسکیں ان شیعوں کے مطابق سب سے پہلے خلیفہ حضرت علی ہیں، پھر حضرت حسن، پھر حضرت حسین، پھر حضرت زین العابدین، پھر حضرت محمد باقر، پھر حضرت جعفر صادق، پھر حضرت موسیٰ کا ظم، پھر حضرت علی رضا، پھر حضرت محمد تقی، پھر حضرت حسین عسکری، پھر حضرت محمد مہدی۔
Top