مشکوٰۃ المصابیح - کرامتوں کا بیان - حدیث نمبر 5883
عن عروة بن الزبير أن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل خاصمته أروى بنت أويس إلى مروان بن الحكم وادعت أنه أخذ شيئا من أرضها فقال سعيد أنا كنت آخذ من أرضها شيئا بعد الذي سمعت من رسول الله صلى الله عليه و سلم قال وماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه و سلم قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه إلى سبع أرضين فقال له مروان لا أسألك بينة بعد هذا فقال اللهم إن كانت كاذبة فعم بصرها واقتلها في أرضها قال فما ماتت حتى ذهب بصرها ثم بينا هي تمشي في أرضها إذ وقعت في حفرة فماتت . متفق عليه وفي رواية لمسلم عن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر بمعناه وأنه رآها عمياء تلتمس الجدر تقول : أصابتني دعوة سعيد وأنها مرت على بئر في الدار التي خاصمته فوقعت فيها فكانت قبرها
حضرت سعید ابن زید کی کرامت
حضرت عروہ ابن زبیر بن العوم ؓ (جو اونچے درجہ کے تابعین میں سے ہیں اور عشرہ مبشرہ میں کے ایک مشہور صحابی حضرت زبیر بن العوام ؓ کے بیٹے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ (ایک عورت) اروی بنت اوس کو حضرت سعید بن زید بن عمرو ابن نفیل سے مخاصمت ہوئی اور ان کے خلاف استغاثہ لے کر مروان ابن حکم کی عدالت میں گئی (جو حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، اروی نے دعوی کیا کہ سعید ابن زید نے میرا ایک قطعہ زمین (زبردستی دبالیا ہے حضرت سعید ؓ نے یہ دعوی سن کر اس کو بعید از امکان قرار دینے کے لئے) کہا رسول کریم ﷺ کا ارشاد سننے کے بعد بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس عورت کی زمین دبا لونگا۔ مروان نے پوچھا تم نے رسول اللہ ﷺ صلی اللہ ﷺ سے کیا سنا ہے؟ حضرت سعید نے بیان کیا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی زبردستی ہتھیا لے گا تو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اس زمین کے ساتوں طبقوں کو طوق بنا کر اس شخص کے گلے میں ڈالے گا، مروان نے (یہ سن کر) حضرت سعید ؓ سے کہا کہ اس دلیل کے بعد میں اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا کہ تم سے گواہ طلب کروں تاہم حضرت سعید (رح) نے (زمین کا وہ قطعہ اس عورت کے حق میں چھوڑ دیا اور) کہا اے اللہ! یہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اس کی بینائی چھین لے اور اس کو اسی زمین میں موت دے۔ حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے وہ عورت اندھی ہوگئی تھی اور ایک دن اسی (مذکورہ) زمین پر چل رہی تھی کہ اچانک ایک گہرے گھڑے میں گری اور وہی مرگئی (بخاری ومسلم ) اور مسلم کی ایک اور روایت میں، جو حضرت ابن زید ابن عبداللہ ابن عمر (رح) (تابعی) سے اس روایت کے ہم معنی منقول ہے یوں ہے کہ انہوں نے (یعنی محمد ابن زید نے ایک دن) دیکھا کہ وہ عورت، جو اندھی ہوچکی تھی (ایک دیوار کے سہارے) ٹٹولتی ہوئی چل رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مجھے سعید ابن زید کی بددعا کھا گئی اور پھر یہ ہوا کہ (ایک دن) جب وہ اس کنویں (یعنی گہرے گڑھے) کے پاس سے گذر رہی تھی جو اسی مذکورہ زمین پر واقع گھر میں تھا تو اچانک اس میں گر کر مرگئی اور وہی کنواں (گڑھا) اس کی قبر بن گیا۔

تشریح
حضرت سعید ابن زید عشرہ مبشرہ یعنی ان دس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فرما دی تھی، یہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بہنوئی اور بڑے باکرامت ومستجاب الدعوات تھے اروی کے بارے میں یہ تحقیق سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کوئی صحابیہ تھی یا تابعیہ بہرحال اس عورت نے مروان حاکم مدینہ کی عدالت میں حضرت سعید ابن زید (رح) کے خلاف یہ جھوٹا دعوی دائر کیا کہ انہوں نے زبردستی کر کے میری زمین کا کچھ حصہ دبالیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ زمین حضرت سعید ابن زید کی اپنی جائز ملکیت اور قبضے میں تھی چناچہ انہوں نے اس جھوٹے دعوے پر سخت حیرت اور استبعاد کا اظہار کیا اور مروان کے سامنے کہا کہ جس شخص نے کسی کی زمین ہتھیانے کی وعید آنحضرت ﷺ سے خود سن رکھی ہو بھلا وہ کیسے جرأت کرسکتا ہے کہ کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلے۔ مروان نے حضرت سعید (رح) سے اس وعید سے متعلق حدیث سننے کی خواہش ظاہر کی، حضرت سعید (رح) نے وہ حدیث جس کو انہوں نے خود براہ راست آنحضرت ﷺ سے سنا تھا بیان کردی۔ مروان کو حضرت سعید (رح) کی سچائی کا یقین ہوگیا اور اس وقت اس نے حضرت سعید (رح) اللہ تعالیٰ علیہ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے تمہارے سچا ہونے کا پورا یقین ہے کیونکہ میں تمہاری اندرونی زندگی تک جانتا ہوں، تم کسی پر ظلم کر ہی نہیں سکتے اور پھر تم سے یہ حدیث سننے کے بعد تو اس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ عدالتی طور پر تمہاری بات تسلیم کرنے کے لئے تم سے کوئی گواہ طلب کروں۔ یا مروان کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری روایت حدیث میں مجھے کوئی شک نہیں ہے اور نہ اس حدیث کو صحیح ماننے کے لئے میں کسی اور راوی کی بھی روایت کا محتاج ہوں، تم خود اپنی معروف حیثیت کے اعتبار سے دو راویوں بلکہ اس زائد راویوں کے برابر ہو۔ غرضیکہ مروان نے اس عورت کا دعوی کردیا۔ مگر جیسا کہ کرمانی نے لکھا ہے اور خود روایت سے بھی مفہوم ہوتا ہے، حضرت سعید (رح) نے احتیاطا اس زمین سے دست کشی اختیار کر کے اسی عورت کے قبضہ میں جانے دی جس نے اس زمین کا دعوی کیا تھا، تاہم انہوں نے بد دعا ضرور کی کہ وہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اسی دنیا میں اپنے جھوٹ کی سزا پائے اور دنیا والوں کی نظر میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بد دعا کا اثر ظاہر کیا اور جیسا کہ حضرت سعید (رح) نے کہا تھا وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی بھی ہوگئی اور وہی زمین اس کی قبر بھی بنی جب وہ اس زمین میں واقع گھر کے اندر، ایک کنویں نما گڑھے میں گر کر مرگئی تو کسی نے اس کی لاش نکال کر علیحدہ سے دفن کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔
Top