مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5915
وعن أبي بكر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا نورث ما تركناه صدقة . متفق عليه
نبی کے ترکہ میں میراث جاری نہی ہوتی
اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہم (انبیاء علیہم السلام) جو کچھ (زمین جائیداد یا مال) چھوڑتے ہیں اس میں میراث جاری نہیں ہوتی بلکہ وہ صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم ) تشریخ مطلب یہ ہے کہ انبیاء از قسم مال جائیدادجو کچھ چھوڑجاتے ہیں وہ میراث کے طور پر ان کے پسماندگاں کا حق نہیں ہوتا بلکہ صدقہ کا مال ہوتا ہم جس کا مصرف فقراء و مساکین ہوتے ہیں اور صوفیہ کے نزدیک فقیر کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو کسی چیز کا مالک نہ ہو۔ پس انبیاء علہیم السلام کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ بظاہر ان کا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں امانت یا وقف اور صدقہ کے طور پر ان کے پاس رہتا ہے اور جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اسی وجہ سے نہ انبیاء (علیہم السلام) کی مالی میراث جاری ہوتی ہے اور نہ کوئی شخص ان کا وارث قرار پاتا ہے اور جب ان کی وراثت ہی قائم نہی ہوتی تو ان کے ورثاء اور پسماندگان میں کسی کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ ان کا ترکہ پانے کی تمنا میں ان کی موت سے خوش ہو تفصیلی روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی تھی جب حضرت فاطمہ الزہراء ؓ کی طرف سے میراث کا مطالبہ سامنے آیا تھا، انہوں نے حضرت فاطمہ الزہراء ؓ سے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں، میں آپ ﷺ کا ترکہ انہی مصارف میں خرچ کرتا ہوں جہاں آنحضرت ﷺ خرچ فرمایا کرتے تھے اور اسی اعتبار سے میں تمہاری غمخواری بھی اسی طرح کرتا ہوں جس طرح آنحضرت ﷺ تمہاری غمخواری کرتے تھے یہ حدیث میں نے خود آنحضرت ﷺ سے سنی ہے کہ ہم انبیاء (علیہم السلام) کی (مالی) وراثت قائم نہیں ہوتی۔ یہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ بات صرف فاطمہ الزہراء ؓ سے نہیں کہی تھی بلکہ ازواج مطہرات سے بھی کہی تھی جنہوں نے میراث کا مطالبہ کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کی مالی میراث قائم نہیں ہوگی، تنہا اپنی مرضی سے نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے تمام بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلا کر مشورہ کیا اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہی کہا کہ آپ ﷺ کی وراثت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم نے خود آنحضرت ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مذکورہ فیصلہ دیا۔
Top