مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5912
عن عائشة قالت : ما ترك رسول الله صلى الله عليه و سلم دينارا ولا درهما ولا شاة ولا بعيرا ولا أوصى بشيء . رواه مسلم
آنحضرت ﷺ نے کوئی مالی وصیت نہیں کی
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات کے بعد نہ کوئی دینار چھوڑا اور نہ کوئی درہم نہ کوئی بکری چھوڑی اور نہ آپ نے کسی چیز کی وصیت کی۔ (مسلم)

تشریح
اور نہ آپ ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے از قسم مال کسی چیز کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی کیونکہ جب آپ ﷺ سرے سے کوئی جائیداد چھوڑ کر ہی نہیں جارہے تھے تو وصیت کی نوبت کیوں آتی رہا بنو نضیر اور فدک وغیرہ کی زمین و جائداد کا معاملہ تو اس کو آپ ﷺ نے اپنی حیات ہی میں تمام مسلمانوں کے لئے کردیا تھا صرف اپنے اہل و عیال کے نفقہ کے بقدر اس میں سے لیتے تھے۔ اس موقع پر علامہ نووی (رح) لکھتے ہیں ایک روایت میں منقول ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے سامنے یہ ذکر کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا وصی بنایا، تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے (حیرت سے) فرمایا آپ ﷺ نے کب وصیت فرمائی تھی؟ میں (تو آخر وقت تک آپ ﷺ کے پاس رہی اور) جب تک کہ آپ ﷺ کی روح پرواز نہیں کرگئی آپ ﷺ کا تکیہ بنی بیٹھی رہی اور (اگر آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں کوئی وصیت کی ہوتی اور ان کو اپنا وصی یعنی اپنے مال و جائیداد کا وارث یا نگران بنایا ہوتا تو اس کا علم مجھ سے زیادہ کس کو ہوتا۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں غلط کہتے ہیں، آپ ﷺ نے کسی کو وصی نہیں بنایا پس حدیث کے الفاظ والا اوصی بشی کا موضوع مالی وصیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہ تو اپنے مال کے تہائی حصہ کی وصیت نہ تہائی سے زیادہ یا کم کی، کیونکہ آپ ﷺ کے پاس نہ کوئی مال تھا نہ جائیداد کہ اس کے بارے میں وصیت کرتے اسی طرح آپ ﷺ نے نہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں کوئی وصیت کی اور نہ کسی دوسرے کے حق میں جیسا کہ شیعوں کا غلط گمان ہے۔ جہاں تک ان احادیث صحیحہ کا تعلق ہے جن میں کتاب اللہ کے متعلق وصیت کرنے یا غیر قوموں کے ایلچیوں اور وفدوں کی خاطر داری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرنے کا ذکر ہے تو وہ دوسرا موضوع ہے۔ جو حدیث کے مذکورہ الفاظ ولاوصی بشئی کی مراد نہیں ہے بعض سیرت نگاروں نے جو یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس بہت اونٹ تھے، دس اونٹنیاں تھیں اور اونٹنیوں اور اونٹوں کو نواح مدینہ میں رکھا جاتا تھا جہاں سے اونٹنیوں کا دودھ نکال کر لوگ روزانہ رات میں لایا کرتے تھے، نیز آپ ﷺ کے پاس سات بکریاں بھی تھی جن کا دودھ آپ ﷺ پیا کرتے تھے۔ تو یہ روایت تو اس حیثیت کی نہیں ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کی معارض بن سکے دوسرے اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس بات پر محمول ہوگی کہ وہ اونٹ وغیرہ صدقہ کا مال تھے اور ان کے ذریعہ جو دودھ حاصل ہوتا اس کو اصحاب صفہ اور دوسرے غیر مستطیع لوگ پیا کرتے تھے۔
Top