مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5911
وعن جعفر بن محمد عن أبيه أن رجلا من قريش دخل على أبيه علي بن الحسين فقال ألا أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قال : بلى حدثنا عن أبي القاسم صلى الله عليه و سلم قال : لما مرض رسول الله صلى الله عليه و سلم أتاه جبريل فقال : يا محمد إن الله أرسلني إليك تكريما لك وتشريفا لك خاصة لك يسألك عما هو أعلم به منك يقول : كيف تجدك ؟ قال : أجدني يا جبريل مغموما وأجدني يا جبريل مكروبا . ثم جاءه اليوم الثاني فقال له ذلك فرد عليه النبي صلى الله عليه و سلم كما رد أول يوم ثم جاءه اليوم الثالث فقال له كما قال أول يوم ورد عليه كما رد عليه وجاء معه ملك يقال له : إسماعيل على مائة ألف ملك كل ملك على مائة ألف ملك فاستأذن عليه فسأله عنه . ثم قال جبريل : هذا ملك الموت يستأذن عليك . ما استأذن على آدمي قبلك ولا يستأذن على آدمي بعدك . فقال : ائذن له فأذن له فسلم عليه ثم قال يا محمد إن الله أرسلني إليك فإن أمرتني أن أقبض روحك قبضت وإن أمرتني أن أتركه تركته فقال : وتفعل يا ملك الموت ؟ قال : نعم بذلك أمرت وأمرت أن أطيعك . قال : فنظر النبي صلى الله عليه و سلم إلى جبريل عليه السلام فقال جبريل : يا محمد إن الله قد اشتاق إلى لقائك فقال النبي صلى الله عليه و سلم لملك الموت : امض لما أمرت به فقبض روحه فلما توفي رسول الله صلى الله عليه و سلم وجاءت التعزية سمعوا صوتا من ناحية البيت : السلام عليكم أهل البيت ورحمة الله وبركاته إن في الله عزاء من كل مصيبة وخلفا من كل هالك ودركا من كل فائت فبالله فثقوا وإياه فارجوا فإنما المصاب من حرم الثواب . فقال علي : أتدرون من هذا ؟ هو الخضر عليه السلام . رواه البيهقي في دلائل النبوة
وصال نبوی ﷺ کے بعد حضرت خضر (علیہ السلام) کی تعزیت
اور حضرت امام جعفر صادق ابن محمد (رح) اپنے والد (حضرت امام باقر) سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک شخص ان کے والد حضرت امام علی زین العابدین ابن حسین (نبی رہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت امام علی زین العابدین (رح) نے اس سے کہا کہ کیا میں تمہارے سامنے رسول کریم ﷺ کی حدیث بیان کروں اس شخص نے کہا ہاں ہمارے سامنے حضرت ابوالقاسم محمد ﷺ کی حدیث ضرور بیان کیجئے۔ چناچہ امام علی زین العابدین (رح) نے بیان کیا جب رسول کریم ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) (عیادت کرنے اور پیغام الٰہی پہنچانے کے لئے) آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ تعظیم و تکریم (جس بات کی صورت میں ہے وہ صرف) آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے (اور وہ بات یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے وہ چیز دریافت کرتا ہے جس کو وہ آپ ﷺ سے زیادہ جانتا ہے (کیونکہ ظاہر و باطن کون سی چیز اس سے پوشیدہ ہے) تاہم وہ دریافت کرتا ہے کہ آپ ﷺ کہ آپ ﷺ اپنے کو کیسا پاتے ہیں یعنی آپ کا کیا حال ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) میں نے اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں اور اے جبرائیل (علیہ السلام) میں اپنے آپ کو مضطرب و پریشان پاتا ہوں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) (یہ جواب لے کر چلے گئے اور) پھر دوسرے دن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہی الفاظ کہے جو پہلے دن کہے تھے، نبی کریم ﷺ نے بھی جواب میں وہ بات کہی جو پہلے کہی تھی، تیسرے دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پھر آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور وہی الفاظ کہے جو پہلے تھے، نبی کریم ﷺ نے بھی جواب میں وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی اور اسی دن یا اس کے بعد کسی اور دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ایک اور فرشتہ بھی تھا جس کو اسماعیل کہا جاتا ہے اور ایسے ایک لاکھ فرشتوں کا افسر ہے جن میں ایک ایک فرشتہ ایک ایک لاکھ فرشتوں کا افسر ہے، اس اسماعیل فرشتے نے آپ کی خدمت میں باریاب ہونے کی اجازت مانگی، آنحضرت ﷺ نے اسماعیل فرشتہ کو باریابی کی اجازت دی اور پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے (کچھ لمحے توقف کے بعد) کہا کہ یہ موت کا فرشتہ (عزرائیل) بھی حاضر ہے اور باریابی کی اجازت چاہتا ہے، حالانکہ اس فرشتہ موت نے نہ تو کبھی آپ ﷺ سے پہلے کسی شخص سے اجازت مانگی ہے اور نہ کبھی آپ ﷺ کے بعد کسی شخص سے اجازت مانگے گا (یعنی یہ صرف آپ ﷺ کا اعزازوشرف ہے کہ اس کو آپ ﷺ سے اجازت مانگنے کی ضرورت ہوئی ہے) ورنہ دوسرے آدمیوں کے پاس تو اچانک پہنچتا ہے اور روح قبض کرلیتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اجازت دے دو چناچہ حضرت جبرائیل نے فرشتہ موت کو اجازت سے آگاہ کیا اور اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا (اور آپ ﷺ اپنی روح قبض کرنے کا حکم دیں تو قبض کرلوں اور اگر آپ یہ حکم دیں کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا آپ نے فرمایا اے فرشتہ موت کیا تم (وہی) کروگے (جو میں تمہیں حکم دوں گا) فرشتہ موت نے جواب دیا بیشک مجھے تو حکم ہی یہ دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو اختیا ردیدوں) اور آپ ﷺ جو کچھ فرمائیں اس کی اطاعت کروں۔ امام علی زین العابدین کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرشتہ موت کی یہ بات سن کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا (گویا ان سے مشورہ چاہا کہ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہے) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا اے محمد حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی ملاقات کے مشتاق ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ سنا توبلاتامل فرشتہ موت سے فرمایا کہ جس بات کا تم کو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرو، چناچہ فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی پاک روح قبض کرلی۔ جب رسول کریم ﷺ کا وصال ہوگیا اور ایک تعزیت کرنے والا (اہل بیت کو تسلی دینے) آیا تو لوگوں نے گھر کے ایک گوشہ سے آتی ہوئی آواز سنی کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے اے اہل بیت اور وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں تم پر سلامتی ہو۔ اللہ کی مہربانی اور اس کی برکتیں نازل ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی کتاب یا اللہ کے دین میں ہر مصیبت کے وقت تسکین و تسلی کا سامان موجود ہے، اللہ تعالیٰ ہر ہلاک ہونے والی چیز کا بدلہ عطا کرنے والا اور ہر فوت ہونے والی چیز کا تدارک کرنے والا ہے جب صورت یہ ہے تو اللہ کی مدد سے تقویٰ اختیار کرو، اس سے امید رکھو مصیبت زدہ حقیقت میں وہ شخص ہے؟ جو ثواب سے محروم کردیا گیا، حضرت علی نے کہا تم لوگ جانتے ہو (تعزیت و تسلی کے الفاظ کہنے والا) یہ کون شخض ہے؟ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ (روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے )

تشریح
اپنے آپ کو مضطرب و پریشان پاتا ہوں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے سامنے اپنے جس غم وکرب اور اضطراب و پریشانی کا اظہار کیا اس کا تعلق امت کے مستقبل سے تھا میری امت نہ معلوم کن حالات سے دو چار ہو اور مسلمانوں کو کن نقصانات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔ اسماعیل فرشتہ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ آسمان دنیا کا درواغہ ہے۔ نیز حدیث میں جس طرح اسماعیل فرشتہ کے آنے کا ذکر ہے۔ اسی طرح فرشتہ موت یعنی عزارئیل کی آمد کا ذکر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت فرشتہ موت کا آنا بالکل ظاہر بات ہے۔ جس کو بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی یا یہ کہ فرشتہ موت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور اسماعیل فرشتہ کے آنے کے بعدعین اسی وقت حاضر ہوا ہوگا جب حضرت جبرائیل نے اس کی حاضری کی اطلاع اور اس کی طرف سے اجازت باریابی کی درخواست آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور سیوطی نے بیہقی ہی سے یہ روایت نقل کی ہے تیسرے دن جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کے ساتھ فرشتہ موت بھی تھا اور ان دونوں کے ساتھ ہوا میں ایک اور فرشتہ تھا جس کو اسماعیل (علیہ السلام) کہا جاتا ہے اور جو ایسے ستر ہزار فرشتوں پر حاکم مقرر ہے جن میں ایک ایک فرشتہ دوسرے ستر ہزار فرشتوں کا افسر اعلیٰ ہے۔ چناچہ فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی روح قبض کرلی کے تحت شیخ عبد الحق لکھتے ہیں۔ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ فرشتہ موت اور ایک تیسرا فرشتہ حضرت اسماعیل آئے اور مذکورہ گفتگو پوری ہوگئی تو اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو تھوڑی دیر مہلت ملی اور اس مہلت میں آپ ﷺ نے صحابہ کو اس سارے واقعہ اور گفتگو کی خبردی اور پھر اس کے بعد فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی روح قبض کی یا یہ ہوا کہ عالم غیب کا یہ سارا واقعہ اور گفتگو بعض ان صحابہ پر بھی منکشف ہوئی جو اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے اور انہی صحابہ میں سے کسی نے امام علی زین العابدین سے یہ واقعہ بیان کیا جن کو امام زین العابدین نے روایت کے شروع میں قریش میں سے ایک شخص سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن ہمارا دل یوں کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) ایک قریشی شخص کی صورت میں حضرت امام زین العابدین کے پاس آئے تھے اور انہوں نے یہ حدیث ان سے بیان کی اسی لئے امام زین العابدین نے راوی کا ذکر مبہم الفاظ میں کیا ایک روایت میں حضرت ام سلمہ ؓ سے منقول ہے کہ انتقال کے وقت نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک پر وصیت و نصیحت کے جو الفاظ بہت زیادہ تھے وہ یہ تھے۔ الصلوۃ وماملکت ایمانکم نماز اور اپنے ملوک غلاموں کا خاص خیال رکھنا۔ ان فی اللہ عزائ کے معنی ومطلب میں شارحین حدیث کے مختلف اقول ہیں) مثلا ایک قول یہ ہے کہ فی اللہ (اللہ میں) کے الفاظ دراصل فی کتاب اللہ (اللہ کی کتاب میں) کا مفہوم رکھتے ہیں مطلب یہ مصیبت وغم کے موقع پر تسلی و تسکین دینے یا حاصل کرنے کی راہنمائی کتاب اللہ میں موجود ہے، پس ان الفاظ میں گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے (الَّذِيْنَ اِذَا اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْ ا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ) 2۔ البقرۃ 256) اور آپ ﷺ ایسے صابرین کو بشارت سنا دیئجے (جن کی یہ عادت ہے) کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے ہی ملک ہیں اور اسی کے پاس جانے والے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ فی اللہ دراصل فی دین اللہ (اللہ کے دین میں) کے معنی میں ہے اور مطلب یہ کہ اللہ کے دین میں ہر مصیبت وغم کے موقع پر اس صبر کی صورت میں تسلی کا سامان موجود ہے جس کی تلقین شارح (علیہ السلام) نے کی ہے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ میں تسکین و تسلی کا سامان موجود ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت وغم کے وقت صبر اور تسکین و تسلی عطا کرنے والا ہے۔ گویا علم بیان کی اصطلاح میں یہ بات تجرید کے طور پر کہی گئی ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ عربی میں کہا جاتا ہے رأیت فی زید اسد۔ میں نے زید میں شیر دیکھا۔ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے زید کو شیر کی طرح طاقتور اور بہادر پایا۔ یہ احتمال پایا۔ یہ احتمال ما بعد عبارت کے اعتبار سے زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ خلفا من کل ہالک ودرکا من کل فائت کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں مذکورہ ہوئے کہ اللہ ہر بلاک ہونے والی چیز کا بدلہ عطا کرنے والا اور ہر فوت ہونے والی شئے کا تدارک کرنے والا ہے اور ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ کے دین یا اللہ کی کتاب میں وہ تعلیمات مذکور ہیں کہ ان پر عمل کرکے انسان بڑی سے بڑی محرومی امربڑے سے بڑے نقصان کو اپنے حق میں نعم البدل یعنی اخروی اجر و انعام کا باعث بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے تقویٰ اختیار کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ کو خوش دلی کے ساتھ قبول کر کے اور اس کی مدد توفیق کے ذریعہ صبر و استقامت اختیار کرو، رونے دھونے اور بےصبری وبے قراری سے دور رہو، ان الفاظ میں گویا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی تلقین ہے کہ واصبروما صبرک الا باللہ۔ اور صبر کرو اور تمہارا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ اور ایک روایت میں یہاں (فاتقوا یعنی تقویٰ اختیار کرو کے بجائے فتقوا کا لفظ ہے (جیسا کہ حصن حصین میں بھی منقول ہے) اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ پر اعتماد کرو اور کہا جائے گا کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے کہ وتوکل علی الحی الذی لایموت۔ اور اسی حی لایموت (اللہ) پر توکل رکھو۔ اسی سے امید رکھو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی سے اپنی امیدیں وابستہ نہ کرو کیونکہ امید اسی ذات سے وابستہ کی جاسکتی ہے جو معبود ہو اور معبود اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ صبر پر تمہارے لئے اللہ کے ہاں جو اجر وثواب ہے اس کی پوری پوری امید رکھو۔ جو ثواب سے محروم کردیا گیا کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مصیبت زدہ وہ شخص نہیں ہے جو کسی دنیاوی مصیبت میں مبتلا ہو کیونکہ کسی دنیاوی مصیبت پر صبر کرکے بحسب مرتبہ بڑے سے بڑا ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ حقیقی مصیبت زدہ تو وہ ہے جو مصیبت پر صبر نہ کرے اور پھر اخروی اجر وثواب سے محروم قرار پائے واضح رہے کہ اللہ کے نزدیک وہی صبر معتبر ہم جو مصیبت و صدمہ کے وقت شروع ہی میں حاصل ہوجائے۔ حضرت علی نے کہا تم لوگ جانتے ہو؟ یہ اس نامعلوم آواز کی وضاحت تھی جو گھر کے ایک گوشہ سے آرہی تھی، چناچہ حضرت علی نے بتایا یہ آواز دراصل حضرت خضر (علیہ السلام) کی ہے، جو اہل بیت نبوی اور صحابہ کرام سے تعزیت کے لئے یہاں آئے ہیں۔ نیز عبارت کے ظاہری سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں علی سے مراد امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات ہم جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ تاہم اس احتمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حدیث کے روای امام علی زین العابدین ہی مراد ہوں اور انہوں نے یہ حدیث روایت کرتے وقت اس آواز کی وضاحت میں یہ بات کہی ہو۔۔ حصن حصین میں رمز مستدرک کے ساتھ یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی روح عالم بالا کو پرواز کرگئی تو فرشتوں نے (غیبی آواز کی صورت) صحابہ اور اہل بیت نبوی سے تعزیت کی تعزیت کے وہی الفاظ نقل کرنے کے بعد جو اوپر حدیث میں نقل ہوئے ہیں، ایک اور روایت یوں نقل کی ہے (آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد) ایک سفید ریش شخص، جو نہایت تنومند اور خوش شکل تھا۔ اچانک (حجرہ نبوی میں داخل ہوا صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ الفاظ کہے فی اللہ عزاء۔ اللہ کی کتاب یا اللہ کے دین میں ہر مصیبت حادثہ کے وقت تسکین و تسلی کا سامان موجود ہے۔ حضرت علی اور حضرت ابوبکر نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی حدیث میں علی سے مراد حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ مراد ہیں۔
Top