مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5909
وعن عائشة أنها قالت : وا رأساه قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ذاك لو كان وأنا حي فأستغفر لك وأدعو لك فقالت عائشة : واثكلياه والله إني لأظنك تحب موتي فلو كان ذلك لظللت آخر يومك معرسا ببعض أزواجك فقال النبي صلى الله عليه و سلم : بل أنا وا رأساه لقد هممت أو أردت أن أرسل إلى أبي بكر وابنه وأعهد أن يقول القائلون أو يتمنى المتمنون ثم قلت : يأبى الله ويدفع المؤمنون أو يدفع الله ويأبى المؤمنون . رواه البخاري
حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں وصیت
اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سردرد کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے) کہا ہائے میرا سر پھٹا جا رہا ہے) رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا (عائشہ! ) وہ (یعنی تمہاری موت) اگر ایسی صورت میں آئی کہ میں زندہ رہا تو تمہارے لئے (سیأات سے) مغفرت و بخشش کی دعا مانگوں گا اور تمہارے (درجات و مراتب کی بلندی) کے لئے بھی دعا کروں گا، حضرت عائشہ بولیں ہائے میرے درد کی مصیبت اللہ کی قسم میرا تو خیال ہے کہ میری موت کو پسند فرماتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا (کہ میں مرگئی) تو آپ ﷺ اسی دن کے آخری حصہ میں اپنی کسی بیوی کے ساتھ شب باشی فرمائیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (عائشہ! چھوڑو اس بات کو اور سنو) میرا قصد تھا۔ یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میرا ارادہ تھا کہ میں (تمہارے والد) ابوبکر اور ان کے بیٹے (یعنی تمہارے عزیز بھائی عبدالرحمن) کو بلا بھیجوں اور ان کے حق میں وصیت کردوں تاکہ پھر کہنے والے کچھ نہ کہیں یا آپ نے یہ فرمایا کہ تاکہ متمنی لوگ (ابو بکر کے بجائے خود اپنے لئے یا کسی اور کے لئے خلافت کی) تمنا کا اظہار نہ کریں، پھر میں نے اپنے دل میں کہا خود اللہ تعالیٰ (ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت کو) منظور نہیں کرے گا) اور مسلمان بھی مدافعت کریں گے یا آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ مدافعت کرے گا اور مسلمان بھی نہیں مانیں گے۔ (بخاری )

تشریح
ہائے میرا سر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کے مرض الموت ہی کے زمانہ کا واقعہ ہے، کسی دن حضرت عائشہ کے سر میں شدید سردرد ہوا ہوگا اور انہوں نے اس شکایت کا اظہار آنحضرت ﷺ کے سامنے ان الفاظ میں کیا ہوگا اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ سر سے مراد ذات ہے جس کے ذریعہ حضرت عائشہ اپنی موت کی طرف اشارہ کیا۔ واثکلیا ہائے میرے سردرد کی مصیبت لفظ ثکل (ث کے زبر اور پیش دونوں کے ساتھ) اصل معنی لڑکے یا دوست کے مرنے کے ہیں اور یہاں اس لفظ سے حضرت عائشہ نے خود اپنی ذات مراد لی ہے۔ کہ مرض کا ذکر موت کی یاد دلاتا ہے ویسے یہ ایک محاوراتی لفظ ہے، جوہر اضطراب و پریشانی کے وقت اہل عرب کی زبان پر آتا ہے خواہ اس کے حقیقی معنی مراد ہوں، یا مراد نہ ہوں۔ آپ ﷺ میری موت کو پسند فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے حضرت عائشہ نے یہ الفاظ اس ناز ونیاز اور پیارومحبت کے طور پر کہے جوان کے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان تھا گویا حضرت عائشہ نے یہ کہا کہ میں مرگئی تو آپ کی بلا سے آپ ﷺ تو مجھے فورا بھلادیں گے اور اپنی دوسری بیویوں میں مشغول ہوجائیں گے۔ میرے سر کے درد اور میری موت کا ذکر کرو یعنی یہ تم اپنے سرکے درد اور اپنی موت کا ذکر لے کر کیوں بیٹھ گئیں، تمہیں تو میرے سرکے درد اور میرے بارے میں سوچنا چاہے۔ میں جو اس دنیا سے رخت سفر باندھ رہا ہوں، تمہیں تو ابھی بہت زندہ رہنا ہے اور میرے بعد بھی بہت زمانہ تک اس دنیا میں رہنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ پتہ چل گیا تھا کہ درد سر دراصل میرا مرض الموت ہے جب کہ عائشہ کا درد سراتفاقی ہے اور ان کی زندگی ابھی بہت باقی ہے آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ کی مرض کی اس یکسانیت میں اس کمال محبت کی طرف محبت کی طرف لطیف اشارہ ہے جوان دونوں کے درمیان تھا۔ میرا قصد تھا جب آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کے سامنے اپنی موت کا ذکر فرمایا توقدرتی طور پر اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری تھا کہ آپ کے بعد کون شخص ملت کی دینی و دنیاوی قیادت سنبھالے گا؟ چناچہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف واضح اشارہ فرمایا اور اس کا مقصد حضرت عائشہ کی دلجوئی اور ان کو ان کے باپ کے لئے اس عظیم دولت ونعمت کی بشارت دینا بھی تھا تاکہ پھر کہنے والے کچھ نہ کہیں ان یقول القائلین کا ترجمہ تو یہی ہے اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ابوبکر کو اپنا ولی عہد بنا کر ان کی خلافت کو وصیت کردینے سے پھر بعد میں لوگوں کو کچھ کہنے سننے کا موقع نہ رہے گا۔ اور ایک ترجمہ یہ ہوگا کہ کبھی کہنے والے کچھ کہیں اس صورت میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ میرے اس ارادہ کی بنیاد یہ تھی کہ اگر میں نے ابوبکر کے لئے خلافت کبریٰ (ملت کی دینی و دنیاوی قیادت ) کی وصیت نہ کی تو شاید لوگ یہ کہنے لگیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر کے لئے خلافت صغریٰ (نماز کی امامت) ہی پر اکتفا کرلیا، ان کے لئے خلافت کبریٰ کی واضح وصیت کیوں نہ کی، باوجودیکہ خلافت صغریٰ میں خلافت کبریٰ کا اشارہ بھی موجود ہے۔ پھر میں نے (اپنے دل میں) کہا یہاں سے آنحضرت ﷺ نے اپنے مذکورہ ارادہ پر عمل نہ کرنے کا سبب بیان فرمایا کہ اول تو اللہ کا فیصلہ یہی ہوگا۔ کہ میرے بعد پہلے خلیفہ ابوبکر ہوں۔ دوسرے یہ کہ مسلمان بھی ابوبکر کی خلافت کو برضا ورغبت قبول کریں گے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ میں نے اپنی بیماری کی حالت میں نماز کی امامت کے لئے ابوبکر کو منتخب کیا جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی قیادت عظمی (منصب خلافت) کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی سب سے زیادہ ابوبکر میں ہے۔ پس جب کہ تقدیر الہٰی بھی یونہی ہوگی اور عام مسلمان بھی ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت پر تیار نہیں ہوں گے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ابوبکر کی خلافت کے لئے باقاعدہ وصیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے کہ خلیفہ اول ابوبکر ہی منتخب ہوئے اور جب بعض لوگوں کی طرف سے اس بارے میں کسی قدر اختلاف رائے کا اظہار ہوا تو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے حق میں اسی خلافت صغریٰ (امامت نماز) سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا جب آنحضرت ﷺ نے ابوبکر کو ہمارے دین کے معاملہ میں منتخب فرمایا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کو اپنی دنیا کے معاملہ میں منتخب نہ کریں دراصل مسئلہ خلافت میں حضرت ابوبکر کے حق میں اس سے بڑی دلیل اور کوئی ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ اور مسلمان بھی نہیں مانے گے اس جملہ میں نہ صرف یہ کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے بلکہ اس میں ان لوگوں کی تکفیر کی طرف بھی اشارہ ہے جو حضرت ابوبکر کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔
Top