مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5907
وعن أبي سعيد الخدري قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم في مرضه الذي مات فيه ونحن في المسجد عاصبا رأسه بخرقة حتى أهوى نحو المنبر فاستوى عليه واتبعناه قال : والذي نفسي بيده إني ؟ لأنظر إلى الحوض من مقامي هذا ثم قال : إن عبدا عرضت عليه الدنيا وزينتها فاختار الآخرة قال : فلم يفطن لها أحد غير أبي بكر فذرفت عيناه فبكى ثم قال : بل نفديك بآبائنا وأمهاتنا وأنفسنا وأموالنا يا رسول الله قال : ثم هبط فما قام عليه حتى الساعة . رواه الدارمي
مسجد نبوی کے منبر پر آخری خطبہ
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے مرض وفات میں (ایک دن) اپنے حجرہ سے نکل کر مسجد نبوی میں تشریف لائے جہاں ہم (پہلے سے) بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے اپنے سر کو کپڑا باندھ رکھا تھا (جیسا کہ درد سر کا مریض اپنے سر کو باندھے رکھتے ہے) پھر آپ ﷺ منبر کی طرف چلے اور اس پر کھڑے ہوئے، آپ ﷺ کے ساتھ ہم بھی آگے بڑھ کر آپ ﷺ کے سامنے) بیٹھ گئے اس وقت آپ ﷺ نے (حمد وثنا کے بعد) فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس وقت اپنی جگہ (یعنی اس منبر پر کھڑا ہوا حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں پھر فرمایا ایک بندہ ہے جس کے سامنے (فانی دنیا اور دنیا کی (فانی) بہاریں پیش کی گئیں لیکن اس نے (مٹ جانے والی دنیا پر) آخرت (کی کبھی نہ مٹنے والی تعمتوں) کو ترجیح دے دی ہے حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے رمز سوائے ابوبکر کے کوئی نہ سمجھ سکا، (زبان رسالت سے یہ الفاظ سن کر) ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور وہ رونے لگے، پھر بولے (نہیں) یا رسول اللہ ﷺ! (نہیں، ایسی دلدوز بات نہ فرمائیے) ہم اپنے باپوں کو، ماؤں کو، اپنی جانوں کو اور اپنے مالوں کو آپ ﷺ پر سے صدقہ کردیں گے۔ حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ منبر پر سے اتر کر تشریف لے گئے اور اس وقت تک پھر کبھی اس منبر پر نہ کھڑے نہ ہوئے (یعنی اس دن آپ کا منبر پر کھڑا ہونا آخری کھڑا ہونا تھا )۔ (دارمی)

تشریح
دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چاہے آپ ﷺ دنیا میں ابھی اور رہیں اور ہم دنیا کے خزانے آپ ﷺ کے سپرد کریں اور ان پہاڑوں کو آپ کے لئے سونا چاندی کا بنادیں بغیر اس کے کہ ہمارے ہاں (آخرت میں) آپ کے لئے جو درجہ اور اجر و انعام مقرر ہے اس میں ذرہ برابر کمی ہو اور چاہے آپ ﷺ ہمارے پاس آجائیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے سرجھکا لیا (جیسا کہ کسی اہم فیصلہ کا اعلان کرنے سے پہلے ارباب غور وفکر سرجھکا کر سوچنے لگتے ہیں) اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے غلاموں میں سے ایک غلام وہاں موجود تھا اس نے جو یہ بات سنی کہ آپ ﷺ کو دولت وزر کی اتنی زبردست پیشکش کے ساتھ دنیا میں رہنے کا اختیار دیا جارہا ہے) تو وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ! اس میں کیا حرج ہے اگر آپ ﷺ کچھ مدت اور دنیا میں رہنا منظور فرما لیں، آپ ﷺ کے طفیل میں حاصل ہونے والے مال وزر سے ہم لوگ بھی آرام و آسائش کی زندگی گزار لیں گے، آنحضرت ﷺ نے اس غلام کی بات پر توجہ دینے کے بجائے نگاہ اٹھا کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور جاننا چاہا کہ پیشکش اور اختیار کا اصل مقصد کیا ہے اور (جب سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ اصل مقصد اپنے پاس بلانا ہے تو) فرمایا میں وہاں آنا چاہتا ہوں اس طرح آپ ﷺ نے آخرت کو اختیار کرلیا جس کو فنا نہیں، زوال نہیں اور دنیا کو ٹھکرا دیا جس کا انجام فنا اور زوال کے علاوہ کچھ نہیں اسی بنا پر بعض نے بہت خوب کہا ہے کہ اگر کسی سمجھ دار کو ایسے دو پیالوں میں سے کسی ایک پیالہ کو چن لینے کا اختیار دیا جائے جن میں سے ایک پیالہ تو مٹی کا ہو لیکن پائیدار رکھتا ہو اور دوسرا پیالہ سونے کا ہو مگر پائداری نہ رکھتا تو وہ سمجھدار یقینا اس پیالہ پر کہ جو سونے کا ہم مگر جلد ہی ختم ہوجانے والا ہے اس پیالہ کو ترجیح دے گا جو مٹی کا ہونے کے باوجود پائیدار اور باقی رہنے والا ہے اور کہیں صورت حال اس کے برعکس ہو یعنی سونے کے پائیدار پیالہ اور مٹی کے پائیدار پیالہ اور مٹی کے غیر پائیدار پیالہ میں سے کسی ایک پیالہ کو پسند کرلینے کا اختیار ہو تو پھر کوئی انتہائی نادان اور بیوقوف ہی شخص ہوگا جو پائیدار سونے کے پیالہ کو چھوڑ کر جلد ضائع ہوجانے والے مٹی کے پیالہ کو پسند کرے گا۔ پس جان لینا چاہئے کہ آخرت کی مثال اس پیالہ کی سی ہے جو پائیدار بھی ہے اور سونا کا بھی ہے جب کہ دنیا کی مثال اس پیالہ کی ہے جو نہ صرف مٹی کا ہے بلکہ جلد ضائع اور فنا ہوجانے والا ہے، قرآن کریم میں اسی حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے والاخرۃ خیروابقی اور آخرت ہی بہتر واعلی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا بھی۔
Top