مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5897
وعن عقبة بن عامر قال : صلى رسول الله صلى الله عليه و سلم على قتلى أحد بعد ثماني سنين كالمودع للأحياء والأموات ثم طلع المنبر فقال : إني بين أيديكم فرط وأنا عليكم شهيد وإن موعدكم الحوض وإني لأنظر إليه من مقامي هذا وإني قد أعطيت مفاتيح خزائن الأرض وإني لست أخشى عليكم أن تشركوا بعدي ولكني أخشى عليكم الدنيا أن تنافسوها فيها . وزاد بعضهم : : فتقتتلوا فتهلكوا كما هلك من كان قبلكم . متفق عليه
وداعی نماز اور وداعی خطاب
اور حضرت عقبۃ ابن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک ایسے شخص کی مانند کہ جو زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہا ہو، احد کے شہیدوں پر (ان کی تدفین کے) آٹھ سال بعد نماز پڑھی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر (ہمیں خطاب کیا اور) فرمایا میں تمہارے آگے تمہارا میر منزل ہوں، میں تمہارا شاہد ہوں، تم سے کیا گیا وعدہ پورا ہونے کی جگہ حوض کوثر ہے اور یقین جانو میں اس وقت بھی اپنے منبر پر بیٹھا ہوا حوض کوثر دیکھ رہا ہوں، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور میں اس بات سے تو نہیں ڈرتا کہ تم سب میرے بعد کفر وشرک اختیار کر لوگے البتہ مجھے یہ ڈر ضرور ہے کہ دنیا میں تمہاری دلچسپی زیادہ ہوجائے گی بعض راویوں نے یہاں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں اور دنیا میں تمہاری دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ جانے کا نیتجہ یہ ہوگا کہ (تم ملک و دولت اور حکومت و اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے کا) قتل و قتال کرنے لگوگے اور پھر تم لوگ بھی اسی طرح ہلاکت و تباہی کا شکار ہوجاؤ گے جیسے پہلے لوگ ہلاک وتباہ ہوگئے تھے۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
جیسے عام طور پر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے موجودہ مقام سے کسی دوسرے مقام کو منتقل ہوتا ہے اور جدائی سے پہلے اپنے لوگوں سے وداعی سلام و کلام کرتا ہے، اسی طرح آنحضرت ﷺ نے اپنے زمانہ حیات میں یعنی یوم وفات سے چند دن پہلے شہدائے احد کے لئے نماز پڑھی جو گویا مردوں کو وداعی کہنا تھا اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر اپنے صحابہ کے سامنے ایسا بلیغ وعظ ارشاد فرمایا جس سے آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونا اور زندوں کو وداع کہنا مفہوم ہوتا تھا۔ پس مردوں کو وداع کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ ان کے ساتھ اس دنیاوی تعلق کا وہ سلسلہ اب ختم ہونے والا ہے جو دعاواستغفار اور ایصال ثواب کی صورت میں زندگی بھر جاری رہا اور زندوں کو وداعی کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ بہت جلد اپنے صحابہ اور اپنے متعلقین کے درمیان سے اٹھ جائیں گے اور اس دنیا میں ذات رسالت کے وجود سے جو نور ہدایت اور فیضان صحبت حاصل ہوتا وہ کسی کو پھر کبھی اس دنیا میں حاصل نہیں ہوگا۔ شہدائے احد کے لئے نماز پڑھی کے تحت ایک چھوٹی سی فقہی بحث بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ حنفیہ کے مسلک میں چونکہ شہداء کی بھی نماز جنازہ ہے اس لئے حنفی علماء کے نزدیک یہاں نماز کا لفظ اپنے معروف معنی یعنی نماز جنازہ کے لئے استعمال ہوا ہے جب کہ شافعی علماء جن کے مسلک میں شہدا کے لئے نماز جنازہ نہیں ہے کہتے ہیں کہ شہداء احد کے لئے نماز پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ نے شہداء احد کے حق میں دعاء استغفار کیا۔ میں تمہارے آگے تمہارا میر منزل ہوں میں میرمنزل فرط کا ترجمہ ہے اور عربی میں اس شخص کو کہتے ہیں جو پیچھے چھوڑ کر خود منزل پر پہنچ جائے تاکہ وہاں قافلہ کے لئے قیام وطعام اور جملہ آسائش و ضروریات کا انتظام درست رکھے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ میں تم لوگوں سے پہلے عالم آخرت میں جارہا ہوں تاکہ وہاں تم لوگوں (یعنی امت کی) کی کا رسازی اور نجات و شفاعت کے اسباب مہیا کروں یا یہ کہ حشر میں تمہاری شفاعت چونکہ مجھے کرنی ہے اس لئے تم سے پہلے وہاں پہنچ کر میں شفاعت کے لئے تیار ہوں گا۔ میں تمہارا شاہد ہوں سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی اگر میں تم لوگوں کو چھوڑ کر جارہا ہوں مگر تمہارے احوال و معاملات سے بےتعلق اور لاعلم نہیں رہوں گا کیونکہ تمہارے اعمال و حالات وہاں میرے سامنے پیش کئے جاتے رہیں گے۔ یا یہ کہ میں تمہارا شاہد یعنی گواہ ہوں، وہاں میں تمہاری فرمانبرداری وطاعت اور تمہارے دعوت اسلام قبول کرنے کی گواہی دوں گا۔ وعدہ پورا ہونے کی جگہ حوض کوثر ہے کا مطلب تھا کہ آخرت میں حوض کوثر وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر نیک باطن اور بدباطن اور مؤمن اور منافق کے درمیان خط امتیاز قائم ہوجائے گا، اسی طرح محشر میں تمہاری شفاعت خاص کا جو میرا وعدہ وہ حوض کوثر پر پورا ہوگا کہ وہاں صرف اہل ایمان کو میری شفاعت پر حوض کوثر سے سیراب ہونے کا موقع ملے گا یہ مطلب ملاعلی قاری نے لکھا ہے اور حضرت شیخ عبد الحق نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ محشر میں میرے دیدار کا تم سے جو وعدہ ہے اس کے پورا ہونے اور میرے اور تمہارے درمیان ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے۔ حوض کوثر دیکھ رہا ہوں یہ ارشاد گرامی اپنے ظاہری معنی پر ہی محمول تھا، اس میں کی تاویل کی گنجائش نہیں، مطلب یہ کہ اس وقت جبکہ آپ ﷺ اپنے منبر پر بیٹھے ہوئے صحابہ کو خطاب کر رہے تھے گویا آپ ﷺ کے لئے حوض کو آخرت کے پردوں سے بےحجاب کردیا گیا تھا اور آپ ﷺ اپنی ظاہری آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے تھے۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دیدی گئی ہیں کا مطلب یہ تھا کہ میرے بعد مجاہدین امت کے ہاتھوں جو بڑے بڑے علاقے اور شہر فتح ہونگے اور وہاں کے لوگ ایمان واسلام قبول کرلیں گے، ان کے خزانے میری امت کے ہاتھوں میں آجائیں گے۔ دنیا میں تمہاری دلچسپی زیادہ ہوجائے گئی کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ میرے بعد تم لوگ انشاء اللہ ایمان ودین پر قائم (رہو) گے یہ اور بات ہے کہ بعض بدنصیب لوگ کفر وشرک کے اندھیروں کی طرف پھر لوٹ جائیں مگر بحیثیت مجموعی ساری امت دوبارہ گمراہ نہیں ہوسکتی، ہاں یہ تو ہوسکتا ہے کہ وقت گذ رنے کے ساتھ تمہاری دینی زندگی میں بھی اضمحال آجائے اور تم دنیا میں بہت زیادہ دلچسپی لینے لگو جو تمہاری شان اور تمہاری حیثیت سے فروتربات بھی ہوگی اور تمہاری دینی وملی زندگی پر اس کے مضر اثرات بھی مرتب ہونگے۔ دراصل اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ اہل ایمان کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کی فانی نعمتوں اور لذتوں کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہوں اور ان کی بڑی دلچسپی کا مرکز دنیا بن جائے، ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر دلچسپی اور اپنی ساری رغبت آخرت کی نعمتوں میں رکھیں کیونکہ باقی اور قائم رہنے والی نعمتیں تو وہی ہیں۔ اسی حقیقت کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔ وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون۔ اور نعمتوں کے شائقین (یعنی اہل ایمان) کو چاہیے کہ وہ اسی (آخرت) کی نعمتوں سے رغبت ودلچسپی رکھیں۔ امام نووی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کے متعدد معجزوں کا اظہار ہوتا ہے ایک تو یہ کہ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ میری امت زمین کے خزانوں کے مالک بنے گی بالکل سچ اور واقعہ کے مطابق ثابت ہوا دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے بارے میں جو یہ خبر دی کہ وہ مرتد نہیں ہوگی تو ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدی کو کفر و ارتداد سے بچایا اور تیسرے یہ کہ آپ ﷺ کا یہ فرمانا بھی کہ میری امت کے لوگ دنیا میں زیادہ دلچسپی لینے لگیں گے بالکل صحیح ثابت ہوا۔
Top