مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5896
وعن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه و سلم جلس على المنبر فقال : إن عبدا خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده . فبكى أبو بكر قال : فديناك بآبائنا وأمهاتنا فعجبنا له فقال الناس : نظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو يقول : فديناك بآبائنا وأمهاتنا فكان رسول الله صلى الله عليه و سلم هو المخير وكان أبو بكر هو أعلمنا . متفق عليه
وہ رمز جس کو صرف صدیق اعظم نے پہچانا
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (مرض وفات کے آیام میں ایک دن، یا جیسا کہ ایک روایت میں وضاحت بھی ہے، وفات سے پانچ راتیں پہلے) منبر پر تشریف فرما ہوئے اور (ہمیں خطاب کرتے ہوئے) فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک بندہ کو دونوں چیزوں کے درمیان اختیار دے دیا ہے کہ چاہے تو وہ اس دنیا کی بہار کا انتخاب کرلے جو اللہ دینا چاہے (یا جو خود لینا چاہے) اور چاہے اس چیز کا انتخاب کرلے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (یعنی آخرت کی نعمتیں) پس اس بندہ نے اللہ کے ہاں کی نعمتوں (اور آخرت کے اجروثواب) کا انتخاب کرلیا ہے (کیونکہ اصل اور ابدی نعمتیں تو وہی ہیں) حضرت ابوبکر صدیق ؓ (آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) ایک دم رو پڑے اور عرض کیا (یا رسول اللہ ﷺ اگر ہماری جانوں کا نذرانہ کچھ کارگر ہوسکے تو) ہم آپ ﷺ پر قربان ہوں، ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوجائیں۔ ہم لوگوں (یعنی وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر سخت حیرت ہوئی (کہ آخر اس موقع پر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا باعث کیا چیز بنی ہے!؟ چناچہ کچھ لوگوں نے تو (آپس میں ایک دوسرے سے) یہ بھی کہا کہ ذرا ان بڑے میاں کو تو دیکھو (اتنی پختہ عمر اور عقل رکھنے کے باوجود کیسی بےتکی بات کر رہے ہیں کہ) رسول کریم ﷺ تو کسی بندے کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دونوں چیزوں کا اختیار دے دیا ہے کہ چاہے دنیا کی بہار کا انتخاب کرے اور چاہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور یہ بڑے میاں کہہ رہے ہیں کہ (یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ ﷺ پر قربان ہوں ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوجائیں!؟ (لیکن مراد خود اپنی ذات مبارک تھی) بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ دانا تھے (انہوں نے شروع ہی میں اس رمز کو پہچان لیا کہ جس بندہ کو اختیار دئیے جارہا ہے وہ خود آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
یہ حضرت ابوبکر ؓ کے فہم و ادراک کا کمال تھا، انہوں نے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سنتے ہی تاڑ لیا کہ ذات رسالت پناہ ﷺ کی مفارقت کا وقت قریب آگیا ہے اور ہمارے درمیان آپ ﷺ چند ہی دنوں کے مہمان ہیں انہوں نے یہ حقیقت یا تو آپ ﷺ کی شدید علالت قرنیہ سے پہچانی تھی یا انہوں نے اس گہرائی میں جا کر ارشاد گرامی کے رمز کو تلاش کیا کہ دنیا کی عزت اور پر بہار نعمتوں سے منہ موڑ لینا اور آخرت کی ابدی حقیقتوں کو برضاء ورغبت اختیار کرلینا وہ وصف ہے جو صرف اللہ کے نیک ترین اور مقرب ترین بندوں کے مقام تسلیم ورضا اور قرب کو ظاہر کرتا ہے، ادھر وہ جانتے ہی تھے کہ اس دنیا کی نعمتیں، مقام سید الانبیاء (علیہم السلام) کے شایان شان نہیں ہیں، لہذا ان کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ ایک بندہ کے ذریعہ دراصل اپنی ذات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ دنیاوی حیات وبقاء کو چھوڑ کر موت اور بقاء حق کو اختیار کرلینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
Top