مشکوٰۃ المصابیح - نبی ﷺ کی وفات کا بیان - حدیث نمبر 5890
یوم وفات
چونکہ مرض الموت کی ابتداء کے دن و تاریخ اور وفات کے دن و تاریخ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس لئے تعین کے ساتھ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آپ ﷺ کتنے دن مرض الموت میں مبتلا رہے، چناچہ علماء کرام (رح) نے لکھا ہے کہ مذکورہ اختلاف اقوال کی بناء پر آپ ﷺ بارہ یا اٹھارہ دن بیمار رہے اور علماء کرام کے معتمد قول کے مطابق ٢ ربیع الاول دوشنبہ (پیر) کے دن اس دار فانی سے آپ ﷺ نے انتقال فرمایا منقول ہے کہ اس وقت جب کچھ لوگوں کو تردد ہوا کہ آپ ﷺ کی روح مبارک، جسد پاک سے پرواز کرگئی ہے یا نہیں تو حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے جو پہلے جعفر ابن ابوطالب کے نکاح میں تھیں اور ان کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نکاح میں آئیں اور پھر ان کی وفات کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نکاح میں آگئی تھیں، آنحضرت ﷺ کے جسد پاک پر شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر دیکھا اور کہا رسول اللہ ﷺ اس جہان فانی سے کوچ فرماچکے ہیں اور آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان جو مہر نبوت تھی وہ اٹھالی گئی۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ وفات کے دن میں اپنا ہاتھ سرکار دوعالم ﷺ کے سینہ مبارک پر رکھ کر دیکھا تھا اس دن کے بعد سے کئی ہفتوں تک میرے (اس ہاتھ سے مشک کی خوشبو آتی رہی حالانکہ میں ہر کھانے کے وقت (اور ویسے بھی وضو وغیرہ) پابندی سے ہاتھ دھویا کرتی تھی۔ اور شواہد النبوۃ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا آپ کا حافظہ اور فہم اتنا اچھا کس طرح ہوگیا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے سرکار دوعالم ﷺ کے جسد اطہر کو غسل دیا تو آپ ﷺ کی پلکوں میں جو پانی جمع ہوگیا تھا اس کو میں نے اپنی زبان سے اٹھایا تھا اور پی گیا تھا، اسی چیز کو میں اپنے حافظہ وفہم کی قوت کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔
Top