مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5857
وعن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه و سلم خرج يوم بدر في ثلاثمائة وخمسة عشر قال : اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فأشبعهم ففتح الله له فانقلبوا وما منهم رجل إلا وقد رجع بجمل أو جملين واكتسوا وشبعوا . رواه أبو داود
جنگ بدر میں قبولیت دعا کا معجزہ
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جنگ بدر کے دن تین سو پندرہ آدمیوں کو لے کر نکلے اور دعا فرمائی اے اللہ! یہ ( میرے صحابہ جو تیری راہ میں لڑنے کے لئے نکلے ہیں ننگے پاؤں ہیں ان کو سورای عطا فرما! یہ ننگے بدن ہیں (کہ ان کے جسم پر تہبند کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں) ان کو لباس عطا کر، اے اللہ! یہ بھوکے ہیں، ان کو ( ظاہری و باطنی طور پر) شکم سیر فرما ( تاکہ ان کو تیری طاعت و عبادت کی طاقت حاصل ہو چناچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ( مشرکین مکہ کے مقابلہ پر) فتح یاب کیا ( دشمن کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی جنگی قیدیوں کے طور پر ہاتھ لگے) مجاہدین اسلام، اس حالت میں واپس ہوئے کہ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے پاس ایک یا دو اونٹ نہ ہوں، نیز سب کو لباس بھی نصیب ہوئے اور سب شکم سیر بھی ہوئے۔ ( ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ کہ ہزیمت خوردہ دشمن کے جو اونٹ، کپڑے اور غذائی سامان مال غنیمت کے طور پر اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا۔ اس کی وجہ سے ان مجاہدین کو اونٹ بھی مل گئے، کپڑے بھی ملے اور شکم سیری بھی ہوگئی، پس آنحضرت ﷺ کی ایک ایک دعا قبول ہوئی۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا قبول ہونا خصوصا ً اتنی جلدی اور اتنے مکمل طور پر قبول ہونا خارق عادت ( یعنی معجزہ و کر امت) کے قبیل سے ہے اور یہ نتیجہ تھا اس اس صبر کا جس کا مظاہرہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی تمام صعوبتوں اور پریشانیوں پر آنحضرت ﷺ اور مجاہدین اسلام کی طرف سے ہوا، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے ان الصبر علی ما یکرہ فیہ خیر کثیر۔ ( ناگوار اور پریشان کن امور پر صبر کرنا درحقیقت بہت ساری بھلائیوں اور فائدوں کا استحقاق حاصل کرنا ہے) نیز اس صبر کا یہ تو وہ فوری ثمرہ تھا، جو اس دنیا میں ملا، اصل ثمرہ تو باقی ہی رہا، جو آخرت میں ملے گا۔ والاخرۃ خیر وابقی۔
Top