مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5852
وعن أنس بن مالك قال جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه و سلم وهو جالس حزين وقد تخضب بالدم من فعل أهل مكة من قريش فقال جبريل يا رسول الله هل تحب أن أريك آية قال نعم فنظر إلى شجرة من ورائه فقال ادع بها فدعا بها فجاءت وقامت بين يديه فقال مرها فلترجع فأمرها فرجعت فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم حسبي حسبي . رواه الدارمي
درخت کا معجزہ
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نہایت غمگین اور زخموں کے خون میں لتھڑے ہوئے بیٹھے تھے جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے کہ اتنے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ ﷺ کو ( آپ ﷺ کا) ایک معجزہ دکھاؤں (جو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی علامت ہوگی اور جس سے آپ ﷺ کو تسلی ہوجائے گی کہ اللہ کی راہ میں اذیت و پریشانی اٹھانا آپ ﷺ کے مراتب و درجات کی بلندی میں اضافہ کا باعث ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ ضرور دکھاؤ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اس درخت کی طرف دیکھا جو ان کے پیچھے تھا اور پھر آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اس درخت کو بلائیے۔ آنحضرت ﷺ نے درخت کو بلایا اور وہ آپ ﷺ کے سامنے ( تابعداروں کی طرح) آکر کھڑا ہوگیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اب اس کو واپس جانے کا حکم دیجئے، آنحضرت ﷺ نے اس کو واپسی کا حکم دیا تو واپس چلا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا مجھ کو کافی ہے مجھ کو کافی ہے (دارمی)۔

تشریح
جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے سے کفار مکہ کہ وہ بدسلوکی اور اذیت رسانی مراد ہے جو ان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو جنگ احد میں پہنچی تھی جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ کا دندان مبارک شہید ہوا اور رخسار مبارک زخمی ہوگیا تھا۔ صورت میں بارگاہ حق میں اپنا بلند مرتبہ ومقام اور اپنی عظمت دیکھ کر مجھے اپنے زخموں کی اذیت کا احساس رہ گیا اور نہ کوئی رنج وغم رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کہ خارق عادت (یعنی معجزہ یا کرامت) کا ظہور یقین و اعتقاد کی مضبوطی اور غم وحزن کے دفعیہ میں موثر کردار ادا کرتا ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ جن بندگان عالی کو بارگاہ رب العزت میں تقرب اور عظمت کا مقام حاصل ہوتا ہے اگر ان کو دشمنوں کی اور مخالفوں کی طرف سے جسمانی یا روحانی اذیت و تکلیف اور رنج وغم پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ دین کی راہ میں جس قدر مشقت اور پریشانی آتی ہے اتنا ہی اجر بڑھتا ہے۔
Top