مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5845
وعن حذيفة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : في أصحابي وفي رواية قا ل : في أمتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تك ( فيهم الدبيلة : سراج من نار يظهر في أكتافهم حتى تنجم في صدورهم . رواه مسلم وسنذكر حديث سهل بن سعد : لأعطين هذه الراية غدا في باب مناقب علي رضي الله عنه وحديث جابر من يصعد الثنية في باب جامع المناقب إن شاء الله تعالى
منافقوں کے عبرتناک انجام کی پیش خبری
اور حضرت حذیفہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ میں۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ۔ میری امت میں بارہ منافق ہیں جو جنت میں نہیں داخل ہوں گے بلکہ جنت کی بو بھی نہیں پائیں گے جب تک کو سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ نہ گز جائے۔ اور ان بارہ میں آٹھ منافقوں کو تو دبیلہ نمٹا دے گا ( یعنی ان کو ہلاک کرے ان کے شر اور فتنہ کو ختم کر دے گا) وہ ( دبیلہ) ایک آگ کا شعلہ ہوگا جو ان کے مونڈھوں میں پیدا ہوگا اور پھر سینوں یعنی پیٹوں تک پہنچ جائے گا۔ ( مسلم) او ہم حضرت سہل ابن سعد کی روایت لا عطین ہذہ ارایۃ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب میں اور حضرت جابر کی روایت من یصعد الثنیۃ کو جامع المناقب میں نقل کریں گے۔ ( انشاء اللہ تعالیٰ )

تشریح
جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ نہ گزر جائے یہ مبالغہ اور تعلیق بالمحال ہے، مطلب کہ جس طرح سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ کا گزرنا محال اور ناممکن ہے، اسی طرح ان منافقوں کا جنت میں جانا محال اور ناممکن ہے، قرآن میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں اور وہاں یہ بات کفار کے حق میں فرمائی گئی ہے۔ ولا یدخلون الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط یعنی اور وہ کافر جنت میں داخل نہیں ہونگے، جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ نہ گزر جائے۔ واضح رہے کہ امت ع کا اطلاق منافقوں پر ہوسکتا ہے اگر امت سے مراد امت دعوت ہو، لہٰذا میری امت میں بارہ منافق ہیں۔ میں میری امت سے آپ ﷺ کی مراد امت دعوت ہی تھی یعنی انسانیت عامہ جو آپ ﷺ کی دعوت اسلام کی مخاطب ہے اور جس کو اسلام کی طرف بلانا آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہے، ہاں منافقوں پر صحابہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا، لہٰذا میرے صحابہ میں بارہ منافق ہیں کی تاویل کی جائے گی کہ آپ ﷺ نے ان منافقوں پر صحابہ کا اطلاق ان کے ظاہر احوال کے اعتبار سے کیا کہ اگرچہ ان کے اندر نفاق تھا لیکن بظاہر وہ کلمہ گو تھے اور اپنی اس ظاہری حیثیت کی بناء پر وہ جماعت صحابہ سے اختلاط رکھتے اور ان کے درمیان رہتے سہتے تھے، مطلب یہ کہ ان کے ظاہری احوال کے اعتبار سے اور صحابہ کے ساتھ ان کے اختلاط کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ نے ان کو مجاذا صحابی فرمایا اس اعتبار سے امت کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے، کہ امت دعوت نہیں بلکہ امت اجابت ہی مراد ہے۔ حضرت حذیفہ کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ان منافقین کی تعداد چودہ ١٤ تھی لیکن ان میں سے دو نے توبہ کرلی تھی اور بارہ نفاق پر قائم رہے اور جیسا کہ مخبر صادق ﷺ نے خبر دی تھی وہ بدبخت اسی حالت میں مرے۔ بہر حال آنحضرت ﷺ نے اپنے بعض مخصوص اور مقرب صحابہ کو ان منافقین کے بارے میں تشخص کے ساتھ بتادیا تھا، تاکہ وہ ان کے مکرو فریب اور فتنہ پر دارزیوں سے ہوشیار رہیں، ان منافقین نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عناد آمیز عزائم کے تحت جو فتنہ پردازیاں کیں ان کے ذکر سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے، ان بدبختوں کے مکروہ عزائم کا نقطہ عروج اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی کے سفر کے دوران ایک گھاٹی میں دغا اور فریب کی راہ میں آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا۔ دبیلۃ دبل یا دبلۃ کی تصغیر ہے، جس کے معنی اس پھوڑے کی ہیں جو پیٹ میں ہوتا ہے اور جس کے سبب اکثر موت واقع ہوجاتی ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ دبیلہ طاعون کا ورم مراد ہے جس کو انگریزی میں پلیگ کہتے ہیں ویسے دبل کے ایک معنی آفت اور مصیبت کے بھی ہیں۔ جو ان کے مونڈھوں میں پیدا ہوگا۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ دبیلہ کی وضاحت کی گئی ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ آنحضرت ﷺ کے اصل ارشاد کے جزو نہیں بلکہ حضرت حذیفہ کے اپنے الفاظ ہیں، نیز ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دبیلہ سے طاعون کا ورم ہی مراد ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ سے ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان منافقوں کے بارے میں مجھے پوری طرح بتادیا تھا کہ وہ کون کون سے لوگ ہیں اور کسی طرح مریں گے) چنا چہ وہ سب اسی طرح مرے جس طرح آنحضرت ﷺ نے مجھے بتایا تھا۔
Top