مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5838
وعن عبد الله بن مسعود قال : كنا نعد الآيات بركة وأنتم تعدونها تخويفا كنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في سفر فقل الماء فقال : اطلبوا فضلة من ماء فجاءوا بإناء فيه ماء قليل فأدخل يده في الإناء ثم قال : حي على الطهور المبارك والبركة من الله فلقد رأيت الماء ينبع من بين أصابع رسول الله صلى الله عليه و سلم ولقد كنا نسمع تسبيح الطعام وهو يؤكل . رواه البخاري
انگشتہائے مبارک سے پانی نکلنے اور کھانے سے تسبیح کی آواز آنے کا معجزہ
اور عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ( ہم صحابہ) تو آیات کو برکت و خوشحالی کا سبب سمجھتے تھے اور ( اے لوگو) تم سمجھتے ہو کہ آیات بس ( منکرین صداقت کو) ڈرانے کے لئے ہیں۔ ( اس کے بعد حضرت ابن مسعود ؓ نے ایک معجزہ بیان کیا کہ) ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ( راستہ میں) پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ ( کسی کے پاس برتن میں تھوڑا سا بھی) بچا ہوا پانی ہو تو اس کو دیکھ کر ( میرے پاس لاؤ چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کی خدمت میں ایک ایسا برتن لے کر آئے جس میں بہت تھوڑا سا پانی تھا آپ ﷺ اپنا دست مبارک اس برتن میں ڈال دیا اور فرمایا آؤ جلدی سے یہ پاک اور بابرکت پانی حاصل کرو اور یہ وہ برکت ہے جو ( کسی ظاہری سبب و ذریعہ سے نہیں بلکہ ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اور ( حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے کہا) اس وقت رسول کریم ﷺ کی مبارک انگلیوں سے فوارہ کی طرح پانی ابلتے میں نے خود دیکھا۔ نیز ( حضرت ابن مسعود ؓ نے ایک اور معجزہ یہ بیان کیا کہ) کھانا کھاتے وقت ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے۔ ( بخاری)

تشریح
آیات سے مراد یا تو قرآن کریم کی آیتیں ہیں جو آسمان سے نازل ہوئی تھی یا وہ معجزات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ظاہر فرماتا ہے زیادہ صحیح اور حدیث کے سیاق سے زیادہ مناسبت یہی ہے کہ آیات سے مراد معجزات لئے جائیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ آیات اگرچہ کافروں اور منکروں کو ڈرانے کے لئے ہیں، یہ وضاحت حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے علامہ طیبی (رح) کے حوالہ سے نقل کی ہے اور ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ آیات سے مراد صرف معجزات اور کرامات ہیں انہوں نے واضح کیا ہے کہ یہاں آیات سے آیات قرآنی مراد لینا غیر موزوں ہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں ہی سے پانی نکلتا تھا جیسا کہ جمہور علماء کرام کا قول ہے اور اسی نسبت سے آنحضرت ﷺ کے اس معجزے کو پتھر سے پانی نکلنے کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ پر ترجیع دی جاتی ہے لہٰذا یہ قول ناقابل اعتناء ٹھہر جاتا ہے کہ پانی انگلیوں سے نہیں نکلا تھا بلکہ جو تھوڑا سا پانی برتن میں پہلے موجود تھا وہی بڑھ گیا اور اتنا زیادہ بڑھا کہ آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے فوارہ کی طرح ابلنے لگا، یہ قول دراصل الفاظ حدیث کی تاویل ہے اور نہیں معلوم کہ حدیث کے واضح مفہوم کے باوجود اس تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پانی کے اس معجزہ کا اظہار تو خالی برتن کے ذریعہ بھی ہوسکتا تھا، پھر تھوڑا سا پانی تلاش کرا کے منگانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں یقینا کوئی حکمت و مصلحت ہی ہو کیا لیکن وہ حکمت و مصلحت کیا تھی محدثین وشارحین بسیار غور وفکر کے بعد بھی اس کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے ہیں، لہذا اس کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ حضرت انس ؓ نے دوسرے معجزہ میں کھانے کی تسبیح کا ذکر کیا ہے، انہی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ( ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ایک مٹھی میں سنگریزے اٹھائے تو وہ سنگریزے آپ ﷺ کے دست مبارک میں تسبیح ( یعنی اللہ کی پاکی بیان) کرنے لگے اور ہم نے خود ان کی تسیبح کی آواز سنی۔
Top