مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5836
وعن أنس قال : قال أبو طلحة لأم سليم لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه و سلم ضعيفا أعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء ؟ فأخرجت أقراصا من شعير ثم أخرجت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت يدي ولاثتني ببعضه ثم أرسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم قال فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه و سلم في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : أرسلك أبو طلحة ؟ قلت نعم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لمن معه قوموا فانطلق وانطلقت بين أيديهم حتى جئت أبا طلحة فقال أبو طلحة يا أم سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه و سلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم فقالت الله ورسوله أعلم قال فانطلق أبو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه و سلم فأقبل رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبو طلحة معه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم هلمي يا أم سليم ما عندك فأتت بذلك الخبز فأمر به ففت وعصرت أم سليم عكة لها فأدمته ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم ما شاء الله أن يقول ثم قال ائذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم أذن لعشرة فأكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون أو ثمانون رجلا . متفق عليه وفي رواية لمسلم أنه قال : أذن لعشرة فدخلوا فقال : كلوا وسموا الله . فأكلوا حتى فعل ذلك بثمانين رجلا ثم أكل النبي صلى الله عليه و سلم وأهل البيت وترك سؤرا وفي رواية للبخاري قال : أدخل علي عشرة . حتى عد أربعين ثم أكل النبي صلى الله عليه و سلم فجعلت أنظر هل نقص منها شيء ؟ وفي رواية لمسلم : ثم أخذ ما بقي فجمعه ثم دعا فيه با لبركة فعاد كما كان فقال : دونكم هذا
کھانے میں برکت کا معجزہ
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ابوطلح انصاری ؓ ( جو میرے سوتیلے باپ تھے، گھر میں آکر میری ماں، ام سلیم سے کہنے لگے، کہ ( آج) میں نے رسول کریم ﷺ کی آواز میں بڑی کمزوری محسوس کی جس سے مجھے محسوس ہوا کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ ام سلیم ؓ نے جواب دیا کہ ہاں کچھ ہے اور پھر انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں اور پھر اپنی اوڑھنی لی اور اس کے ایک حصہ میں تو روٹیوں کو لپیٹا اور ایک حصہ سے میرے سر کو لپیٹ دیا اور پھر اوڑھنی میں لپٹی ہوئی ان روٹیوں کو میرے ہاتھ کے نیچے چھپایا اور مجھے رسول کریم ﷺ کے پاس بھیجا، میں وہ روٹیاں لے کر پہنچا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور بہت سارے لوگ ( جن کی تعداد اسی تھی) آپ ﷺ کے باس بیٹھے ہوئے تھے، میں نے سب کو سلام کیا رسول کریم ﷺ نے ( سلام کا جواب دینے کے بعد) مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں ابوطلحہ ؓ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں! پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں! رسول کریم ﷺ نے میرا جواب سن کر ان لوگوں سے جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے فرمایا کہ اٹھو ( ابوطلحہ کے گھر چلو) اس کے بعد آنحضرت ﷺ اور وہ تمام لوگ ( ابوطلحہ کے گھر کی طرف) روانہ ہوئے اور میں بہی آپ ﷺ کے آگے چل پڑا (جیسا کہ خادم اور میزبان آگے آگے چلتے ہیں، یا اس خیال سے آگے چلا کہ پہلے پہنچ کر ابوطلحہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے کی اطلاع کر دوں) چناچہ ابوطلحہ ؓ کے پاس پہنچ کر ان کو ( آپ ﷺ کی تشریف آوری کی) خبر دی، ابوطلحہ ؓ نے ( آنحضرت ﷺ کے ساتھ اتنے سارے آدمیوں کے آنے کی خبر سنی تو) بولے کہ ام سلیم! رسول کریم ﷺ تشریف لا رہے ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ہیں جب کہ ہمارے پاس ( ان چند روٹیوں کے علاوہ کہ جو ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجی تھی) اتنے سارے آدمیوں کے کھلانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے، ام سلیم ؓ نے جواب دیا، اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ پھر ابوطلحہ ؓ ( آنحضرت ﷺ کے استقبال کے لئے) گھر سے باہر نکلے اور ( راستہ میں پہنچ) کر رسول کریم ﷺ سے ملاقات کی اس کے بعد رسول کریم ﷺ ابوطلحہ ؓ کے تشریف لائے اور ( گھر میں پہنچ کر) فرمایا کہ ام سلیم ؓ ( از قسم روٹی) جو کچھ تمہارے پس ہے، لاؤ ام سلیم نے وہ روٹیاں جو ان کے پاس تھیں، لا کر ( آنحضرت ﷺ کے سامنے) رکھ دیں، آنحضرت ﷺ نے ( ابوطلحہ کو یا کسی اور کو حکم دیا کہ وہ روٹیوں کو توڑ توڑ کر چورا کردیں، چناچہ ان روٹیوں کو چورا کیا گیا اور ام سلیم ؓ نے ( گھی کی) کپی کو نچوڑ کر گھی نکالا اور اس کو سالن کے طور پر رکھا، اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے اس روٹی سالن کے بارے میں وہ فرمایا جو اللہ نے کہلانا چاہا۔ پھر آپ ﷺ نے ( مجھے یا ابوطلحہ کو یا اور کسی دوسرے کو) حکم دیا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ، چناچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا اور انہوں نے پیٹ بھر کر کھایا، پھر جب وہ دس آدمی اٹھ کر چلے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دس ( اسی طرح) دس آدمیوں کو بلا کر کھلاتے رہو ( اور دس دس آدمیوں کو بلا کھلایا جاتا رہا) یہاں تک کہ تمام لوگوں نے ( اس تھوڑے سے کھانے میں خوب سیر ہو کر کھایا اور یہ سب ستر یا اسی آدمی تھے۔ ( بخاری) ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو کھانے پر بلاؤ اور جب وہ ( دس آدمی) آئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ! چناچہ انہوں نے ( اللہ کا نام لے کر) کھانا کھایا، اسی طرح ( دس دس آدمی کر کے) اسی آدمیوں کو کھلایا گیا اور جب سب لوگ کھاچکے تو) آخر میں نبی کریم ﷺ نے اور گھر کے آدمیوں نے کھانا کھایا اور پھر بھی پس خوردہ باقی رہا۔ اور بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ اسی طرح ( دس دس آدمی کر کے) چالیس آدمیوں کو شمار کیا اور ان کے بعد خود نبی کریم ﷺ نے کھانا تناول فرمایا اور میں برابر دیکھے جارہا تھا کہ کھانے میں سے کچھ کم ہوا ہے یا نہیں ( لیکن مجھے قطعا کوئی کمی نظر نہیں آرہی تھی۔ اور مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بہی ہیں کہ ( جب سب لوگ شکم سیر ہوچکے ( تو آنحضرت ﷺ نے پس خوردہ کو) اٹھا اٹھا کر جمع کیا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، چناچہ وہ ایسا ہی ہوگیا، جیسا کہ پہلے تھا ( یعنی جس مقدار میں پہلے وہ کھانا تھا، اتنا ہی اب ہوگیا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا لو اس کو رکھو ( اور پھر کھا لینا۔

تشریح
آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھانا کھلانے اور تھوڑے سے کھانے میں برکت ہونے کا یہ واقعہ اسی طرح کا ہے جیسا کہ حضرت جابر ؓ کے ساتھ پیش آیا تھی اور حضرت جابر ؓ کے واقعہ کی طرح یہ واقعہ بھی غزوہ خندق کے موقع کا ہے لہٰذا حضرت انس ؓ کے ان الفاظ رسول کریم ﷺ! اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں مسجد میں سے مراد خندق کے قریب کی وہ جگہ ہے جس کو آپ ﷺ نے دشمنوں کی طرف سے مدینہ کے محاصرہ اور خندق کھودے جانے کے موقع پر نماز پڑھنے کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے اس سوال پر کہ کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ حضرت انس کو ؓ روٹیاں دے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ کیا کھانا دے کر بھیجا ہے؟ آنحضرت ﷺ کا اس بات کو پہلی بات ( کیا تمہیں ابوطلحہ ؓ نے بھیجا ہے) سے الگ کر کے پوچھنا تو سمجھانے کے لئے تھا یا وحی اور علم کی تاخیر کے مطابق تھا، یعنی پہلے تو آپ ﷺ کو وحی کے ذریعہ صرف اس بات کا علم حاصل ہوا تھا کہ انس ؓ کو ابوطلحہ ؓ کے کہنے پر بھیجا گیا ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے بس یہی سوال کیا کہ کیا تمہیں ابوطلحہ ؓ نے بھیجا ہے؟ پھر بعد میں جب دوبارہ وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو یہ علم ہوا کہ انس ؓ کے ساتھ کھانا بھی ہے تو آپ ﷺ نے پھر یہ سوال کیا کہ کیا کھانا دے کر بھیجا ہے؟ اٹھو ( ابوطلحہ کے گھر چلو) کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو چونکہ ( وحی کے ذریعہ) یہ معلوم ہوچکا تھا کہ انس ؓ کے ساتھ چند ہی روٹیاں ہیں لہٰذا آپ ﷺ نے یہ پسند فرمایا کہ اتنے مجمع میں خود تنہا یا دو تین آدمیوں کے ساتھ کھا کر بیٹھ جائیں اور باقی لوگ بھوکے رہیں، اس کے ساتھ آپ ﷺ کا ارادہ اس معجزہ کے اظہار کا بھی ہوا جس کے نتیجہ میں چند روٹیوں سے ایک بڑی جماعت شکم سیر ہوئی اور اسی کے شمن میں دوسرا معجزہ الو طلحہ ؓ کے گھر میں کپی میں خیر و برکت کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے، تاکہ انہوں نے اور ان کے گھر والوں نے آنحضرت ﷺ کے تئیں جس اخلاص و محبت، نیک نیتی اور خدمت گزاری کے جذبہ وعمل کا اظہار کیا اس کا پھل ان کو حصول برکت کی صورت میں ملے، پس آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر ابوطلحہ کے گھر تشریف لے گئے۔ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں اس جواب کے ذریعہ ام سلیم ؓ نے دارصل ابوطلحہ ؓ کو اطمینان دلایا کہ اگر آنحضرت ﷺ اتنے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر تشریف لا رہے ہیں تو اس کی وجہ سے ہمیں اس گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ ہم اتنا تھوڑا سا کھانا اتنے زیادہ آدمیوں کو کسی طرح کھلا پائیں گے، کیونکہ اس میں ضرور کوئی حکمت و مصلحت ہے، جس کو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ہمارے ہاں آپ ﷺ کی آمد یقینًا ہمارے لئے خیروبرکت کا باعث ہوگی۔ گویا ام سلیم ؓ نے فورا محسوس کرلیا کہ آنحضرت ﷺ کی آمد ضرور کسی معجزے کے اظہار کے لئے ہے، اس سے ام سلیم کی دینداری دانشمندی اور قوت یقین کا اظہار ہوتا ہے کہ انہیں جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ آپ ﷺ کی آمد سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی، بلکہ فوری طور پر ان کے دماغ میں یہی بات آئی کہ آنحضرت ﷺ کو کھانے کی نوعیت اور مقدار کا خوب علم ہے، اگر آپ ﷺ کوئی مصلحت نہ سمجھتے تو سب کو لے کر یہاں آنے کی ضرورت کیوں محسوس فرماتے، چونکہ آپ ﷺ کا کوئی فعل مصلحت و حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے جماعت کے ساتھ آپ ﷺ کی آمد میں یقینًا کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔ یہ بھی فیض رسالت کا اعجاز ہی تھا کہ اس زمانہ کی ایک عورت ہمارے زمانہ کے بہت سے مردوں سے بھی زیادہ یقین و ایمان کی قوت رکھتی تھی۔ ؓ وعن اہل عصر ہا وجعلنا فی زمرتہم امین یا رب العلمین۔ وہ فرمایا جو اللہ نے کہلانا چاہا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خیر و برکت کی دعا فرمائی، یا اسماء الہٰی پڑھ کر اس کھانے پر دم کیا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ بسم اللہ اللہم اعظم فیھا الرکۃ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ۔ آپ نے پوری جماعت کو ایک ہی مرتبہ کھانے پر بلانے کے بجائے دس دس آدمیوں کو بلا کر کھلانے کا حکم اس لئے دیا کہ جس برتن میں وہ کھانا تھا وہ بس اتنا ہی بڑا تھا کہ اس کے گرد دس آدمی بیٹھ کر اطمینان سے کھا سکتے تھے اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ مکان میں گنجائش کی کمی کے سبب سب آدمیوں کو بیک وقت بلانے کے بجائے دس دس آدمیوں کو بلا کر کھانے کا حکم دیا گیا۔ اور یہ سب ستر یا اسی آدمی تھے کی وضاحت میں اب ابن حجر (رح) نے لکھا ہے کہ یہاں تو تعداد کا ذکر شک ہی کے ساتھ ہے لیکن دوسری روایت میں تعین اور یقین کے ساتھ اسی کا ذکر ہے، نیز اس روایت میں اسی سے کچھ اوپر کا ذکر ہے تاہم ان دونوں روایتوں میں منافات نہیں ہے۔ کیونکہ اسی (٨٠) والی روایت کے بارے میں احتمال ہے کہ راوی نے تعداد ذکر کرتے وقت کسر کو حذف کردیا ہو، البتہ ایک اور روایت میں جس کو امام احمد بن حنبل (رح) نے نقل کیا ہے جو یہ بیان کیا گیا ہے، کہ اس کھانے میں چالیس آدمیوں نے کھایا اور پھر بھی کھانا جوں کا توں باقی رہا یا یہاں ہی امام بخاری (رح) کی دو دوسری روایت نقل کی گئی ہے اور جس میں چالیس آدمیوں کے کھانے اور ان کے بعد آنحضرت ﷺ کے کھانے کا ذکر ہے تو اس سے ان روایتوں میں واقعہ کا تعدد معلوم ہوتا ہے یعنی ان روتیوں میں ایک ہی واقعہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ الگ الگ دو واقعوں کا ذکر ہے کہ ایک واقعہ میں تو اسی آدمیوں نے کھایا تھا اور ایک واقعہ میں چالیس آدمیوں نے، لیکن ایک شارح نے کہا ہے کہ واقعہ متعدد نہیں بلکہ ایک ہی ہے جس کا ذکر ان روایتوں میں ہے اور ان رویتوں میں تطبیق یہ ہے کہ ان اسی ( ٨٠) آدمیوں نے دو مرحلوں میں کھانا کھایا تھا، پہلے دس دس کر کے چالیس آدمی کھانے سے فارغ ہوئے اور اس کے بعد ان چالیس آدمیوں نے کھانا کھایا جو آنے میں پہلے چالیس آدمیوں سے پیچھے رہ گئے تھے یا آنحضرت ﷺ نے ان کو بعد میں بلا بھیجا تھا۔ اس تطبیق کی روشنی میں بخاری کی دوسری روایت کے یہ الفاظ کہ چالیس آدمیوں نے کھایا اور ان کے بعد آنحضرت ﷺ نے کھانا تناول فرمایا کی وضاحت یہ ہوئی کہ جب چالیس آدمی کھانے سے فارغ ہوگئے تو چالیس آدمیوں کی دوسری جماعت آنے سے پہلے آپ ﷺ نے کھانا تناول فرمالیا، اس طرح آپ ﷺ کی برکت پہلی جماعت کو بھی حاصل ہوگئی اور دوسری جماعت کو بھی۔
Top