مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5821
وعن عائشة قالت سحر رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى إنه ليخيل إليه أنه فعل الشيء وما فعله حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه ثم قال أشعرت يا عائشة أن الله قد أفتاني فيما استفتيته جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي ثم قال أحدهما لصاحبه ما وجع الرجل قال مطبوب قال ومن طبه قال لبيد بن الأعصم اليهودي قال في ماذا قال في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر قال فأين هو قال في بئر ذروان فذهب النبي صلى الله عليه و سلم في أناس من أصحابه إلى البئر فقال هذه البئر التي أريتها وكأن ماءها نقاعة الحناء ولكأن نخلها رءوس الشياطين فاستخرجه متفق عليه
آنحضرت ﷺ پر سحر کئے جانے کا واقعہ
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ( جب) رسول کریم ﷺ پر جادو کیا گیا تو ( تو آپ ﷺ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ) کسی کام کے بارے میں آپ ﷺ کا خیال ہوتا کہ کرلیا ہے حالانکہ وہ کام کیا نہ ہوتا تھا ( کافی دنوں تک آپ ﷺ کی یہی حالت رہی) تاآنکہ ایک دن اس وقت جب کہ آپ ﷺ میرے پاس تھے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر دعا کی اور پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے بیان کیا کہ (اللہ تعالیٰ نے میری حالت کے بارے میں مجھ پر اس طرح منکشف کیا کہ) میرے پاس آدمیوں کی صورت میں دو فرشتے آئے، ان میں سے ایک تو میرے سرہانے بیٹھا اور دوسرا پائینتی، پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے ( میری طرف اشارہ کر کے) پوچھا! اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا اس پر جادو کیا گیا ہے۔ پھر پہلے نے پوچھا جادو کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا لبید ابن اعصم یہودی نے پہلے نے پوچھا کس چیز میں جادو کیا گیا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا کنگھی میں، ان بالوں میں جو کنگھی سے جھڑتے ہیں اور تر کھجور کے خوشہ کے خول میں۔ پہلے نے پوچھا یہ جادو کی ہوئی چیزیں کہاں رکہی ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا مدینہ کے ایک کنویں ذروان میں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ اپنے چند مخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور فرمایا یہی وہ کنواں ہے جو مجھ کو دکھایا گیا ہے۔ اس کنویں کا پانی حنا کی طرح سرخ تھا اور کھجور کے وہ خوشے ( جو اس کنویں میں ڈالے گئے تھے) ایسے تھے جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان سب چیزوں کو کنویں سے نکال لیا۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
کسی کام کے بارے میں آپ ﷺ کا خیال ہوتا۔۔ الخ۔ بعض شارحین نے اس جملہ کا یہ مطلب یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر جو سحر ( جادو) کیا گیا تھا اس کے اثر سے آپ ﷺ پر نسیان ( بھول) کا غلبہ اس طرح ہوگیا تھا کہ کسی کام کرنے کے یا نہ کرنے کا خیال بہک جاتا تھا، مثلا آپ ﷺ کے خیال میں یہ بات آجاتی تھی کہ میں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ ﷺ کا کیا نہ ہوتا تھا، کسی بھی دینی معاملہ میں یہ صورت ہرگز پیش نہیں آتی تھی۔ اس حدیث میں آپ ﷺ کی ذہنی کیفیت و حالات کو ظاہر کرنے کے لئے یخیل کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کی نظیر قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یخیل الیہ من سحرہم انہا تسعی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یہ بات آئی کہ جادو کے اثر سے خود یہ رسیاں دوڑ رہی ہیں، حالانکہ رسیاں نہیں دوڑ رہی تھیں، بلکہ یہ تو ان کافر جادو گروں کی طرف سے نظر بندی کا اثر تھا کہ زمین پر پڑی ہوئی ساکت وصامت رسیاں خیال میں دوڑتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں یا یہ کہ جادوگر نے ان رسیوں پر پہلے سے پارہ جیسی کوئی چیز مل رکھی تھی اور، جب وہ رسیاں دھوپ میں زمین پر ڈال دی گئیں تو سورج کی تمازت سے ان کی ظاہری سطح پر اس طرح کی لرزش اور تھرتھرا ہٹ نمایاں ہوگئی جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں آیا کہ یہ رسیاں خود حرکت کر رہی ہیں۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ اس حالت کو جو سحر کے اثر سے آپ ﷺ میں پیدا ہوگئی تھی، اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خیال میں آتا کہ اپنی کسی بیوں سے ہمبستری کریں لیکن پھر نہیں کرتے تھے، یعنی آپ ﷺ میں خواہش پیدا ہوتی تھی اور یہ جانتے تھے کہ ہمبستری کی قدرت رکھتا ہوں لیکن جب بیوی کے پاس جاتے تھے تو ان پر قادر نہیں ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ دوسرے امراض کی طرح سحر بھی ایک مرض ہی ہوتا ہے پس انبیاء (علیہم السلام) کی بشریت کے تحت جس طرح ان پر دوسرے جسمانی امراض اور بیماریوں کا اثر ہوتا تھا اسی طرح سحر کا بھی ان پر اثر انداز ہونا ان کی نبوت کے منافی نہیں ہے، نیز آنحضرت ﷺ کے جسم شریف میں سحر کی تاثیر اس حکمت کا اظہار بھی تھا کہ سحر کی تاثیر کا ایک حقیقت ہونا اس طرح ثابت ہوجائے کہ جب اشرف المخلوقات کی سب سے عظیم شخصیت بھی سحر سے متاثر ہوسکتی ہے تو دوسرے کی کیا حیثیت ہے اس سے آنحضرت ﷺ کی نبوت کی ایک واضح دلیل بھی ان کفار کے سامنے آئی جو آنحضرت ﷺ کو ساحر کہا کرتے تھے، چونکہ سحر خود ساحر پر اثر انداز نہیں ہوتا۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ پر سحر نے اثر کیا تھا لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ ﷺ ساحر نہیں ہیں۔ آپ ﷺ سے سحر کئے جانے کا یہ واقعہ ذی الحجہ سن ٦ ھ کا ہے جب کہ آپ ﷺ صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے تھے اور علماء کرام نے لکھا ہے کہ سحر کا یہ اثر آپ ﷺ پر چالیس سال تک رہا، ایک روایت میں چھ مہینے کی مدت بھی منقول ہے اور ایک قول کے مطابق تو یہ اثر پورے سال تک رہا۔ تاہم ان روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ غالب گمان یہ کہ اس سحر کا اثر پوری شدت اور غلبہ کے ساتھ چالیس دن تک رہا پھر اس کی کچھ علامتیں چھ ماہ تک باقی رہیں اور کچھ ہلکا سا اثر پورے سال تک رہا۔ بہر حال جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ صورت میں آپ ﷺ پر اس سحر کی حقیقت کو منکشف فرمایا اور اس سے نجات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر دعا کی۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ بار بار دعا کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے التجا میں مسلسل مصروف رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ صورت حال کے پیش آجانے اور کسی آفت وبلاء کے نازل ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور گلوخلاصی کی دعا مانگنا مستحب ہے۔ اس موقع پر علماء کرام نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں کے دل میں دعاء کا داعیہ اس وقت ڈالتا ہے جب قبولیت کی گھڑی آجاتی ہے ان کے برخلاف عالم لوگوں کا معاملہ دوسرا ہوتا ہے ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رکھا جاتا ہے کہ وہ دعا کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب وقت قبولیت آتا ہے تو ان کی دعا قبول ہوتی ہے۔ لبید ابن اعصم یہودی نے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں لبید سے مراد اس کی بیٹیاں ہیں، گویا اس فرشتے نے بتایا کہ لبید ابن اعصم کی بیٹیوں نے آنحضرت ﷺ پر سحر کیا ہے، ان حضرات نے یہ مراد قرآن کریم کی سورت قل اعوذبرب الناس اور الفلق کے ان الفاظ کی بنیاد پر بیان کی ہے کہ ومن شرالنفاثات فی العقد یعنی جادوگروں کا پڑھ پرھ کر گنڈہ پر پھونکنا اور گرہ لگاتے جانا، بھی ہوسکتا ہے۔ قاضی نے خاص طور پر شر نفاثات سے پناہ مانگنے کا سبب لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت ﷺ پر جو سحر کیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ اس ( یہودی) نے کمان کے چلہ کو گنڈہ بنایا اور اس میں گیارہ گرہیں، لگائیں ( جن پر وہ منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتا رہا) اور پھر اس نے اس چلہ ( یا گنڈہ) کو کنویں میں گاڑ دیا، چناچہ آنحضرت ﷺ اس اثر سے بیمار ہوگئے، تب اللہ تعالیٰ نے معوذتین یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل فرمائی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کو وہ کنواں بتایا جہاں گنڈہ دفن تھا، آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھیجا اور وہ اس گنڈہ کو نکال کر لائے اور اس پر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب ایک آیت پڑھتے تو اس گنڈہ کی ایک ایک گرہ خود بخود کھل جاتی، اس طرح ہر آیت پر ایک ایک گرہ کر کے تمام گرہیں کھل گئیں، اس کے بعد کا سچ ثابت ہونا لازم نہیں آتا جو وہ کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ تو سحر زدہ ہیں۔ وہ تو یہ بات اس معنی میں کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ پر کسی ایسے سحر کا اثر ہے جس نے ( نعوذ باللہ) ان کی عقل کو ماؤف کردیا ہے اور ان پر دیوانگی طاری کردی ہے جب کہ آنحضرت ﷺ پر کئے جانے والے اس سحر اور اس کے اثرات کی نوعیت بالکل دوسری تھی۔ بہر حال بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قاضی نے جو روایت بیان کی ہے وہ ایک دوسرا واقعہ ہے اور اس واقعہ کے علاوہ ہے جو یہاں ( حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی) حدیث میں بیان کیا گیا ہے، تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ واقعہ تو ایک ہی ہے مگر الگ الگ دو صورتوں میں ایک ساتھ پیش آیا تھا، یعنی خود لبید نے بھی اپنی تدبیروں کے ساتھ آنحضرت ﷺ پر سحر کیا اور اس کی بیٹیوں نے بھی کیا تھا اور اس طرح حق تعالیٰ نے گویا آپ کے ثواب کو دو چند کرنے کے لئے دونوں سحر کے اثرات میں مبتلا کیا۔ جیسے وہ شیطانوں کے سر ہو۔ کھجور کے وہ خوشے کچھ تو منتر کے اثرات کی وجہ سے اور کچھ پانی میں پڑے رہنے یا نم زمین میں دفن رہنے کی وجہ سے جتنے زیادہ بد ہیت اور جس قدر وحشت ناک ہوگئے تھے اس کو ظاہر کرنے کے لئے ان کو شیطانوں کے سروں کے ساتھ مشابہت دی کیونکہ اہل عرب شیطان کے سر کو بد ہیتی اور وحشت ناکی کی علامت جانتے تھے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں شیطانوں کے سر سے ہیبت ناک سانپ مراد ہیں، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کھجور کے وہ خوشے اس طرح کے ہوگئے تھے جسے ہیبتناک سانپ ہوں۔ اس واقعہ سے متعلق حضرت ابن عباس ؓ کی بھی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سحر اور اس کی جگہ کا انکشاف ہونے کے بعد) آنحضرت ﷺ اور حضرت علی اور حضرت عمار کو سحر کی یہ چیزیں نکالنے کے لئے ذروان کنویں پر بھیجا۔ جب ان دونوں نے کھجور کا وہ خوشہ کنویں سے نکالا تو اس کے خول میں ان کو موم کا بنا ہوا آنحضرت ﷺ کا ایک پتلا ملا، اس پتلے میں سوئیاں چھبوئی ہوئی تھیں اور اس کے اوپر ایک ڈورا گیارہ گرہوں کے ساتھ لپٹا ہوا تھا پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) معوذتین ( سورت قل اعوذ برب الناس اور قل اعوذ برب الفلق) لے کر نازل ہوئے ان دونوں سورتوں کا پڑھا جانا شروع ہوا تو ہر آیت پر ایک گرہ کھلنے لکی اور اس پتلے میں سے کوئی سوئی نکالی جاتی تو آنحضرت ﷺ کو تسکین و راحت محسوس ہوتی اسی طرح ایک ایک کر کے تمام گرہیں کھل گئیں اور اس پتلے میں سے سب سوئیاں نکال لی گئیں۔ اس روایت کے متعلق شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں حضرات کے ساتھ آنحضرت ﷺ بھی تشریف لے گئے ہوں گے اور حضرت علی وحضرت عمار کو کنویں میں جا کر ان چیزوں کے نکال لانے کا حکم فرمایا ہوگا۔ دوسری روایتوں میں بھی یہ آیا ہے کہ سحر اور ساحر کے اس انکشاف کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس یہودی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور نہ کچھ کہا بلکہ یہ فرمایا! کہ میں فتنہ ابھارنے کو پسند نہیں کرتا۔
Top