مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5803
وعن البراء قال بعث النبي صلى الله عليه و سلم رهطا إلى أبي رافع فدخل عليه عبد الله بن عتيك بيته ليلا وهو نائم فقتله فقال عبد الله بن عتيك : فوضعت السيف في بطنه حتى أخذ في ظهره فعرفت أني قتلته فجعلت أفتح الأبواب حتى أنتهيت إلى درجة فوضعت رجلي فوقعت في ليلة مقمرة فانكسرت ساقي فعصبتها بعمامة فانطلقت إلى أصحابي فانتهيت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فحدثته فقال : ابسط رجلك . فبسطت رجلي فمسحها فكأنما لم أشتكها قط . رواه البخاري
دست مبارک کے اثر سے ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ درست ہوگئی
اور حضرت براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو ابورافع کی طرف بھیجا، چناچہ ( جب وہ جماعت اس کے قلعہ پر پہنچی تو ایک صحابی) عبداللہ ابن عتیک رات کے وقت ابورافع کی خوابگاہ میں جب کہ سو رہا تھا، داخل ہوگئے اور اس کو مار ڈالا عبداللہ ابن عتیک نے بیان کیا کہ میں نے ابورافع کے پیٹ پر تلوار رکھی یہاں تک کہ وہ پشت کے طرف سے باہر نکل گئی، جب میں نے سمجھ لیا کہ اس کا کام تمام ہوگیا ہے تب میں نے ( قلعہ) کے دروازے کھولنے شروع کئے ( تاکہ جماعت کے باقی لوگ بھی جو میرے ساتھ اس مہم میں آئے تھے، اندر آجائیں) اور پھر میں ایک زینہ پر پہنچا اور ( اس خیال سے آگے زمین ہے) جونہی میں نے پاؤں رکھا پھیلی ہوئی چاندنی میں ( اس طرح) گرپڑا ( کہ) میری پنڈلی ٹوٹ گئی، میں نے اپنا عمامہ کھول کر پنڈلی کو باند ھ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا ( جو قلعہ کے نیچے کھڑے تھے) پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے سارا ماجرا بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ! میں نے اپنا پاؤں پھیلادیا، آنحضرت ﷺ نے میرے پاؤں پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اسی وقت میرا پاؤں اس طرح اچھا ہوگیا جیسے اس میں کوئی تکلیف ہی نہیں ہوئی تھی۔ ( بخاری)

تشریح
ابورافع ایک یہودی تاجر تھا، اس کی کنیت ابوالحقیق تھی نہایت بدظن اور کمینہ خصلت شخص تھا تمام طرح یہ بھی آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کا دشمن تو تھا ہی، لیکن اس نے اپنی عہد شکنیوں، فتنہ انگیزیوں اور اذیت رسانیوں سے آنحضرت ﷺ کو بہت زیادہ تنگ کردیا تھا، اس بدبخت نے رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں ناپاک ہجو بھی کہی تھی، آخر کار آنحضرت ﷺ نے مجبور ہو کر اس کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا ارادہ فرمالیا اور حضرت عبداللہ ابن عتیک کی سر کردگی میں چند انصاری نوجوانوں کو اس کے قید کرنے یا قتل کر ڈالنے کے لئے بھیجا جو پہلے سے صورت حال کا اندازہ لگا اپنے محفوظ قلعہ میں محصور ہوگیا، عبداللہ ابن عتیک ایک بڑی عجیب اور حیرت انگیز تدبیر کے ساتھ ( جو واقعہ کی پوری تفصیل کے ساتھ تاریخ وسیر کی کتابوں کے علاوہ خود بخاری کی کتاب المغازی کی تفصیلی روایت میں مذکور ہے) پہلے اس کے قلعہ میں اور پھر جب رات کے کھانے کے بعد ابورافع سوگیا تھا اس کی خوب گاہ میں داخل ہوگئے اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔ جب وہ اپنی کاروائی مکمل کر کے واپس ہونے لگے تو انہیں ایک زینہ سے اترنا پڑا اور وہ جب نیچے اتر رہے تھے تو چاند رات ہونے کی وجہ سے اندر زینہ تک اس طرح کی روشنی رہ گی جس میں نگاہ الجھ جاتی ہے، چناچہ عبداللہ ابن عتیک نے یہ سمجھ کر اپنا قدم اٹھایا کہ زینہ ختم ہوگیا ہے اور آگے زمین مگر وہاں ابھی تک ایک زینہ باقی تھا اور ان کا پاؤں اس طرح پڑا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور نیچے گرگئے اس کی وجہ سے ان کی پنڈلی ٹوٹ گئی، بعد میں وہ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور پورا واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے ان کے پاؤں پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کی برکت سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی درست ہوگئی اور ساری تکلیف بھی جاتی رہی، یہ ذات رسالت کا اعجاز تھا۔
Top