مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5799
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال وهو في قبة يوم بدر : اللهم أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن تشأ لا تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله ألححت على ربك فخرج وهو يثب في الدرع وهو يقول : [ سيهزم الجمع ويولون الدبر ] . رواه البخاري
جنگ بدر کے دن آنحضرت ﷺ کی دعا
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جنگ بدر کے دن ایک خیمہ میں یہ دعا مانگ رہے تھے۔ اے اللہ! میں تجھ سے تیری امان مانگتا ہوں اور تیرے وعدہ کا ایفاء چاہتا ہوں اے اللہ! اگر تو یہی چاہتا ہے ( کہ یہاں دشمنوں کے مقابلہ پر مسلمان ہلاک ہوجائیں) تو (روئے زمین پر کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا اور) آج کے بعد تیری عبادت نہیں ہوگی جب آپ ﷺ گڑ گڑا کر یہ دعا مانگتے ہی رہے تو حضرت ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ! بس کیجئے اتنا ہی دعا مانگنا بہت کافی ہے، آپ ﷺ نے بہت الحاح وزاری کے ساتھ اپنے پروردگار سے فتح ونصرت کی التجا کی ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے ( فرط مسرت سے) بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر آئے اور یہ آیت ( جو اس وقت نازل ہوئی تھی) آپ ﷺ ( بآواز بلند) پڑھ رہے تھے۔ (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) 54۔ القمر 45) ( کفار کی) یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے۔

تشریح
تیرے وعدہ کا ایفاء چاہتا ہوں یہ آپ نے اس آیت (وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّا ى ِفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ ) 8۔ الانفال 7) اور جب اللہ تعالیٰ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتے تھے کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی) کی طرف اشارہ کیا جس میں حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر مسلمان کفار مکہ سے جنگ کو اختیار کریں گے تو انہیں اس جنگ میں فتح عطا کی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ تو عارف باللہ تھے اور خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو وعدہ فرما لیتے ہیں اس کے خلاف نہیں ہوتا اور جب اللہ نے فتح کا وعدہ فرما لیا تھا تو وہ حاصل ہونی ہی تھی ایسی صورت میں آپ ﷺ نے دعا کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس دعا سے آپ کا مقصد اس حکم کی تعمیل تھا کہ بندہ کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد و توفیق اور حصول مقصد کی دعا والتجا کرنی چاہئے خواہ اس مقصد کے حصول کا یقینی ہونا اس کو معلوم ہو یا نہ ہو، دوسرے یہ کہ علم باللہ بجائے خود حق تعالیٰ سے خوف، کا متقاضی ہونا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اس خوف سے خالی نہیں ہوتے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے محض اس خوف کے پیش نظر دعا کی ہو کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا ہے، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ خود میری طرف سے کوئی ایسی چیز پیش آئے جو فتح ونصرت کی راہ کی رکاوٹ بن جائے اور حق تعالیٰ کی طرف سے وہ موعودہ فتح ونصرت رد کردی جائے۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے نصرت کا وعدہ بیشک فرمایا تھا لیکن عطائے نصرت کا کوئی وقت متعین نہیں کیا تھا اور آنحضرت ﷺ تاخیر سے ڈرتے تھے اس لئے آپ ﷺ نے دعا مانگی کہ وہ وعدہ آج ہی پورا ہوجائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ شاید اس موقع پر آنحضرت ﷺ کا ذہن اس آیت (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ) 35۔ فاطر 16) اور اس آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ) 29۔ العنکبوت 6) کے مفہوم کی طرف متوجہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی کامل بےپرواہی اور بےنیازی پر دلالت کرتا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے ان آیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حق تعالیٰ سے مدد ونصرت کی دعا فرمائی۔ اسی بات کو امام غزالی نے بھی لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا احساس و ادراک نہایت کامل تھا اور حق تعالیٰ کی شان بےنیازی اور اس کے سطوت و جلال کے تئیں آپ ﷺ کا عمل وعرفان وسیع تر تھا اس لئے آپ ﷺ نے حق تعالیٰ کے وعدہ نصرت کے باوجود فتح کی دعا نہایت منت وسماجت کے ساتھ فرمائی جب کہ حضرت ابوبکر صدیق کی نظر محض حق تعالیٰ کے ظاہری وعدہ پر تھی اس لئے انہوں نے زیادہ دعا کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کے کے وعدہ پر پوار بھروسہ اور اعتماد رکھنے کے باوجود آنحضرت ﷺ کا دعا کرنا اور اس دعا میں الحاح وزاری اختیار کرنا ایک خاص مقصد بھی رکھتا ہے اور وہ تھا صحابہ اور مجاہدین اسلام کے دل کو تقویت دینا، ان کو ثابت قدم رکھنا اور ان میں ولولہ اور حوصلہ پیدا کرنا کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی دعا یقینی طور پر مستجاب ہے۔ خصوصا وہ دعا جو زیادہ سے زیادہ الحاح اور زاری سے ہو۔ فرط مسرت سے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر آئے۔۔ الخ۔۔ پہلے تو آنحضرت ﷺ خوف ورجاء کے درمیان تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ نازل ہوا کہ دشمنوں کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے تو رجاء ( امید) کا پہلو غالب آگیا اور آپ کفار کے مقابلہ پر فتح کے احساس سے خوش ہوگئے، اسلامی مجاہدین کو کفار کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی خوش خبری دینے کے لئے آپ مذکورہ آیت باواز بلند پڑھتے ہوئے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور یہ ایک معجزہ تھا کہ دشمنوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کی فتح کی بات جو اس وقت تک اللہ کے علاوہ اور کسی کے علم میں نہیں تھی، آپ نے اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت و اطلاع پاکر لوگوں کو بتادی۔
Top