مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5197
عن جابر أنه غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل نجد فلما قفل معه فأدركتهم القائلة في واد كثير العضاه فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم وتفرق الناس يستظلون بالشجر فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت سمرة فعلق بها سيفه ونمنا نومة فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعونا وإذا عنده أعرابي فقال إن هذا اخترط علي سيفي وأنا نائم فاستيقظت وهو في يده صلتا . قال ما يمنعك مني ؟ فقلت الله ثلاثا ولم يعاقبه وجلس . متفق عليه . وفي رواية أبي بكر الإسماعيلي في صحيحه فقال من يمنعك مني ؟ قال الله فسقط السيف من يده فأخذ السيف فقال من يمنعك مني ؟ فقال كن خير آخذ . فقال تشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله . قال لا ولكني أعاهدك على أن لا أقاتلك ولا أكون مع قوم يقاتلونك فخلى سبيله فأتى أصحابه فقال جئتكم من عند خير الناس . هكذا في كتاب الحميدي والرياض . وعن
اللہ پر کامل اعتماد کا اثر
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس جہاد میں شریک تھے جو نجد کی اطراف میں ہوا تھا اور جب رسول کریم ﷺ جہاد سے فارغ ہوئے اور واپس ہوئے تو جابر ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہی واپس ہوئے اسی سفر کے دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دن صحابہ ؓ دوپہر کے وقت ایک ایسے جنگل میں پہنچے جس میں کیکر کے درخت زیادہ تھے، چناچہ رسول کریم ﷺ صحابہ کے ساتھ وہیں اتر پڑے اور تمام لوگ درختوں کے سایہ کی تلاش میں ادھر ادھر پھیل گئے ( یعنی ہر شخص ایک درخت کے نیچے چلا گیا اور اس کے سایہ میں کچھ دیر استراحت کی خاطر لیٹ گیا) رسول کریم ﷺ بھی کیکر کے ایک بڑے درخت کے نیچے فروکش ہوگئے اور اپنی تلوار کو اس درخت کی ٹہنی میں لٹکا دیا (حضرت جابر کہتے ہیں) کہ ہم لوگ تھوڑی سی نیند لینے کی خاطر سو چکے تھے کہ اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم ﷺ ہمیں آواز دے رہے ہیں چناچہ ہم لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ ﷺ کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ لیٹے ہوئے ہیں اور وہیں آپ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی کافر موجود ہے، آنحضرت ﷺ نے ہمارے جمع ہونے پر فرمایا کہ یہ دیہاتی اس وقت جب کہ میں سو رہا تھا مجھ پر میری تلوار سونت کر کھڑا ہوگیا اور جب میری آنکھ کھل گئی تو میں نے دیکھا کہ میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ اب تمہیں کون مجھ سے بچائے گا؟ میں نے فورا جواب دیا کہ میرا اللہ مجھے بچائے گا۔ حضور ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ کہی اور اس دیہاتی کو کوئی سزا نہیں دی، پھر آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ (بخاری ومسلم) اور اس روایت میں کہ جس کو ابوبکر اسماعیلی نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے یہ الفاظ ہیں کہ اس دیہاتی نے آنحضرت ﷺ پر تلوار سونت کر کہا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا تو حضور ﷺ نے فرمایا اللہ بچائے گا۔ یہ سنتے ہی دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی حضور ﷺ نے تلوار کو اٹھا لیا اور فرمایا کہ اگر میں تمہیں قتل کرنا چاہوں تو بتاؤ کہ اب تمہیں کون مجھ سے بچائے گا؟ دیہاتی نے جواب دیا آپ ﷺ تو بھلائی کے ساتھ گرفت کرنے والے ہیں (یعنی آپ ﷺ کی شان سے تو مجھے یہ امید ہے کہ میرے لئے انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی اور آپ از راہ لطف و کرم مجھے معاف کردیں گے) حضور ﷺ نے فرمایا کہ اچھا اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ گویا آپ ﷺ نے اس سے یہ فرمایا کہ اگر تمہیں میرے اوپر اتنا زیادہ اعتماد ہے تو پھر یقینا یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہو گے کہ میری دعوت اسلام بالکل برحق اور مبنی برصداق ہے، اس صورت میں تو تمہیں چاہئے کہ کلمہ پڑھ لو اور مسلمان ہوجاؤ (دیہاتی نے کہا کہ مسلمان تو نہیں ہوسکتا البتہ آپ ﷺ سے یہ عہد ضرور کرتا ہوں کہ نہ میں خود آپ ﷺ سے لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کا ساتھ دوں گا جو آپ ﷺ سے لڑیں گے۔ بہرحال آپ ﷺ نے اس دیہاتی کو چھوڑ دیا اور جب وہ دیہاتی اپنی قوم میں آیا تو کہنے لگا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو سب سے بہتر انسان ہے۔ بخاروی ومسلم کی مذکورہ بالا روایت انہی الفاظ کے اضافہ کے ساتھ کتاب حمیدی اور امام محی الدین ہوری کی تصنیف ریاض الصالحین میں بھی منقول ہے۔

تشریح
نجد لغت میں تو زمین کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو عام سطح سے بلند ہو اور ویسے یہ جزیرۃ العرب کے ایک خاص علاقے کا نام ہے اور چونکہ یہ علاقہ ایک سطح مرتفع ہے اس لئے اس کو نجد کا نام دیا گیا ہے زمانہ قدیم میں نجد ایک بہت مختصر علاقہ پر مشتمل تھا مگر موجودہ جغرافیہ میں جزیرۃ العرب کے سارے وسطی علاقہ کو نجد کہا جاتا ہے، جس کا انتہائی طول تقریبا آٹھ سو میل اور انتہائی عرض تقریبا سو دو سو میل ہے، یہ شمال میں بادیۃ الشام کے جنوبی سرے سے شروع ہو کر جنت میں وادی الدوارس یا الربع انحالی تک اور عرضا احساء سے حجاز تک پھیلا ہوا ہے۔ عضاہ اصل میں عضہ کی جعم ہے اور جس کا اطلاق ہر اس درخت پر ہوتا ہے جو کانٹے دار ہو اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ عضاہ کیکر کے درخت کو کہتے ہیں اور جو درخت عضاہ سے بڑا ہو اس کو سمرہ کہا جاتا ہے۔
Top