مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5195
وعن ابن عباس قال كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال يا غلام احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك وإذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف رواه أحمد والترمذي .
تمام تر نفع ونقصان پہنچانے والا اللہ ہے
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن سفر کے دوران میں رسول کریم ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ لڑکے! اللہ تعالیٰ کے تمام احکام امر و نہی کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا خیال رکھے گا اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ان چیزوں پر عمل کرو گے جن پر عمل کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور ان چیزوں سے اجتناب کرو گے جن سے اجتناب کرنے کا اس نے حکم دیا۔ نیز تم ہر وقت اور ہر معاملہ میں اسی کی رضا و خوشنودی کے طالب رہو گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی تمہارا خیال رکھے بایں طور کہ تمہیں دنیا میں بھی ہر طرح کی آفات اور مصیبتوں سے بچائے گا اور آخرت میں بھی ہر عذاب و سختی سے محفوظ رکے گا، جیسا کہ فرمایا گیا ہے (ومن کان للہ کان اللہ لہ) یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کا ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ کے حق کا خیال رکھو گے تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ پاؤ گے یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کو ہر لمحہ یاد رکھو گے، اس کے نظام قدرت میں غور وفکر کرو گے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو گے تو تم اس کی بےپایاں رحمتوں اور اس کے انعامات کو اپنے سامنے پاؤ گے) جب تم سوال کا ارادہ کرو تو صرف اللہ تعالیٰ کے آگے دس سوال دراز کرو، جب تم (دنیا وآخرت کے کسی بھی معاملہ) میں مدد چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ اور یہ جان لو کہ۔ اگر تمام مخلوق کہ خواہ عوام ہوں یا خواص، انبیاء ہوں یا اولیاء اور ائمہ دین ہوں یا سلاطین دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہیں (یعنی اگر بفرض محال یہ ساری مخلوق اس بات پر اتفاق کرلے کہ وہ سب مل کر تمہیں کسی دنیاوی یا اخروی معاملہ میں کوئی فائدہ پہنچا دے تو ہرگز تمہیں نفع نہیں پہنچا سکے گی، علاوہ صرف اس چیز کے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر دنیا کے تمام لوگ مل کر بھی تمہیں کسی طرح کا کوئی نقصان وضرر پہنچانا چاہیں تو وہ ہرگز تمہیں کوئی نقصان وضرر نہیں پہنچا سکیں گے علاوہ صرف اس چیز کے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے، قلم اٹھا کر رکھ دئیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔ (احمد، ترمذی)

تشریح
تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے پاؤ گے کے معنی ایک یہ کہ جس کی طرف ترجمہ میں بھی بین القوسین اشارہ کیا گیا ہے، بعض حضرت کے مطابق یہ ہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی یعنی اس کی عبادت وطاعت اور اس کے احکام کی فرمانبداری پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوگے تو تمہیں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے گا اور تمہارے ساتھ معاملات میں مدد اور مشکل کشائی کرے گا اور تمہارے مقاصد عزائم میں کامیابی عطا فرمائے گا (یا یہ کہ اس صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی کو اپنے سامنے پاؤ گے کہ وہ تمہارے تمام معاملات میں تمہاری رعایت کرتے گا اور طرح طرح سے تمہاری مدد و اعانت کرے گا۔ ایک مطلب، جو بہت اونچے مقام کا ضامن ہے، یہ ہے کہ جب تم حق تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی، اس کی اطات عبادت کی پابندی اور اس کی رضا و خوشنودی کی طلب میں مشغول ومستغرق رہو گے تو اس وقت تمہاری نگاہ معرفت اس کو اپنے سامنے اس طرح پالے گی کہ گویا وہ تمہارے سامنے موجود ہے اور تم مقام احسان اور کمال ایمان کے درمیان اس کا مشاہدہ کر رہے ہو اور بالکل ایسا محسوس کرو گے، جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو بایں حیثیت کہ اللہ کے سوا ہر چیز تمہاری نظر کے سامنے سے بالکل معدوم اور فنا ہوجائے گی، پس اس طرح تمہیں مراقبہ کی کیفیت بھی حاصل ہوگی اور مقام مشاہدہ بھی نصیب ہوگا۔ صرف اللہ کے آگے سوا دست دراز کرو کیونکہ عطاء و بخشش کے تمام خزانے اسی کے پاس اور اسی کے دست قدرت میں ہیں اور دنیا وآخرت کی ہر وہ نعمت و راحت جو بندہ کو پہنچتی ہے اور ہر وہ بلا و سزا جس سے بندہ محفوظ رہتا ہے محض اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پہنچتی ہے یا دفع ہوتی ہے، پھر اس کی رحمت، صرف رحمت ہے نہ کہ اس میں کسی غرض کی آمیزش ہے اور نہ کسی علت وسبب کا دخل، نیز وہ جواد مطلق اور ایسا غنی ہے کہ نہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی ہے اور نہ وہ کبھی محتاج ہوتا ہے لہٰذا صرف وہی ذات اس لائق ہے کہ اپنی ہر امید اس سے وابسہ کی جائے اس کے عذاب کے علاوہ اور کسی سے خوف نہ کھایا جائے، اپنی ہر مشکل میں اور ہر مہم میں صرف اسی کے حضور مدد کی التجا کی جائے اور تمام معاملات میں صرف اسی پر اعتماد کیا جائے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے حکم دیا کہ جو کچھ بھی مانگنا ہو صرف اللہ سے مانگو، اس کے علاوہ کسی اور کے آگے دست سوال دراز نہ کرو، کیونکہ کوئی اور دینے یا نہ دینے اور نفع پہنچانے یا نقصان دور کرنے پر قادر ہی نہیں ہے، جو ذات خود اپنے کو نفع پہنچانے، یا اپنے نقصان کو دور کرنے اور اپنی موت وحیات کی مالک نہیں ہے وہ کسی دوسرے کو کیا نفع پہنچا سکتی ہے اور کیا نقصان سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی طرح مذکورہ حکم میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اپنی کسی بھی حالت میں اور کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں رہنا چاہئے کیونکہ ایک حدیث میں وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس پر اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوتا ہے، علاوہ ازیں اپنے خالق کے آگے پھیلانا درحقیقت اس کے حضور اپنی عاجزی وبے کسی اور محتاجگی کا اظہار کرنا ہے جو عبودیت کی شان ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے اللہ یغضب ان ترکت سؤ الہ وابناء آدم حینی یسأل یغضب اللہ تعالیٰ تو اس وقت خفا ہوتا ہے جب تم اس سے سوال نہ کرو اور آدم کے بیٹے اس وقت خفا ہوتے ہیں جب کہ کوئی ان سے سوال کرے۔ اور اگر تمام مخلوق مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ ہر نفع نقصان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہی نفع پہنچانے والا بھی ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی اور وہی دینے والا ہے اور وہی نہ دینے والا بھی کسی ایک فرد بشر کا تو سوال ہی کیا ہے، اگر تمام روئے زمین کی ساری مخلوق مل کر بھی اللہ کی مرضی وحکم کے خلاف کسی شخص کو کوئی نفع یا کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ اس شخص کو وہ نفع یا نقصان پہنچ جائے۔ الہیات کی بعض کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ۔ قسم ہے اپنی عزت و جلال کی یقینا میں اس شخص سے انقطاع کرلیتا ہوں جو میرے علاوہ کسی اور سے اپنی امید وابستہ کرتا ہے اور لوگوں کی نظر میں اس ذلت کی پوشاک پہنا دیتا ہوں یعنی لوگوں کے سامنے اس کو ذلیل و خوار کردیتا ہوں، اس کو اپنے قرب سے محروم کردیتا ہوں اور اپنے وصل سے دور کردیتا ہوں پس یقین بات یہ ہے کہ میں اس کو حیرانی و پریشانی اور تفکرات کے اندھیروں میں پھینک دیتا ہوں کیا وہ شخص اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے وقت میرے علاوہ کسی اور سے امید رکھتا ہے جب کہ پریشانیان اور مشکلات میرے ہاتھ میں ہیں؟ میں الحی القیوم ہوں وہ شخص فکر و پریشانی کے عالم میں دوسروں کے دروازوں کو کھٹکھٹاتا پھرتا ہے، جب کہ تمام دروازوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہیں اور دروازے بند ہیں؟ میرا دروازہ ہر اس شخص کے لئے کھلا ہوا ہے جو میری طرف آئے اور مجھ سے دعا مانگے۔ قلم اٹھا کر رکھ دئیے ہیں سے مراد یہ ہے کہ جو احکام صادر ہوتے تھے سب لکھے جا چکے ہیں۔ اسی طرح اور صحیفے خشک ہوگئے سے مراد یہ ہے کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اور جس کے حق میں جو کچھ پیش آنا ہے وہ سب تقدیر کی کتاب میں لکھا جا چکا ہے اور وہ کتاب خشک ہوچکی ہے کہ اب اس پر قلم نہیں چلے گی اور جو کچھ لکھ دیا گیا ہے اس کے بعد اب کچھ نہیں لکھا جائے گا۔ حاصل یہ کہ اس دنیا میں جو بھی آتا ہے اور قیامت تک جو بھی آئے گا اس کی تقدیر وقسمت کے فیصلے لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں اور اس کام سے فراغت بھی ہوچکی ہے کہ اب کسی کے حق میں کچھ نہیں لکھا جائے گا۔ پس ہر شخص کی تقدیر وقسمت کے بہت پہلے لکھے جانے قلم اٹھا کر رکھ دینے اور صحیفوں کے خشک ہوجانے سے تعبیر کیا ہے اور اس میں مشابہت کا پہلو یہ ہے کہ جس طرح کوئی کاتب جب کتاب کو مکمل لکھ کر فارغ ہوجاتا ہے تو قلم اٹھا کر رکھ دیتا ہے اور کتاب کو بند کردیتا ہے اسی طرح کاتب تقدیر بہت پہلے ہی مخلوق کی تقدیریں لکھ کر فارغ ہوچکا ہے اور وہ صحیفہ کہ جس میں تقدیریں لکھی ہوئی ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لپیٹ دیا گیا ہے، اس میں کوئی تغیر وتبدل اور کوئی کمی پیشی ممکن نہ رہے اس کتاب کی ابتداء میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا پھر اس سے فرمایا کہ لکھو قلم نے کہا کہ کیا لکھوں؟ فرمایا تقدیر لکھو۔ چناچہ قلم نے وہ سب کچھ لکھا جو اب تک وقوع پذیر ہوچکا ہے اور جو قیامت تک وقوع پذیر ہوگا۔ اگر یہاں یہ اشکال پیدا ہو کہ یہ روایت (کہ قلم اٹھا کر رکھ دئیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے) قرآن کریم کی اس آیت (يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَا ءُ ) 13۔ الرعد 39) کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محو و اثبات بھی دراصل انہی چیزیوں میں سے ہے جو مقدر ہوچکی ہیں اور جن کو لکھنے کے بعد قلم رکھ دئیے گئے اور یہ صحیفے خشک ہوگئے کیونکہ قضا (یعنی وہ کلی احکام و فیصلے جو ازل سے اللہ تعالیٰ نے صادر فرما دئیے تھے) کی دو قسمیں ہیں ایک تو قضائے مبرم (کہ جو اٹل ہے اور جس میں کوئی تغیر وتبدل ممکن نہیں) اور دوسرے قضائے معلق (کہ جو اٹل نہیں ہے اور جس میں تغیر وتبدل ممکن ہے) علاوہ ازیں اس محو و اثبات کا تعلق لوح محفوظ اور اللہ تعالیٰ کے علم سے ہے، یعنی یہ پہلے ہی سے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی کہ فلاں چیز کو اس طرح مٹایا یا باقی رکھا جائے گا اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے پس اسی مفہوم کو اللہ تعالیٰ کی محو و اثبات کی نسبت کر کے بیان کیا گیا ہے جو درحقیقت مقدر امور میں نہ تغیر کہلائے گا نہ تبدل۔ بہرحال اس ارشاد گرامی میں یہ ترغیب ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل و اعتماد کرے رضائے مولیٰ پر راضی رہے اور اپنی تدبیر وسعی اور ذاتی قوت و طاقت کو حقیقی موثر ہرگز نہ جانے کیونکہ پیش آنے والی کوئی بھی چیز کہ خواہ وہ سعادت ومسرت ہو یا شقاوت وکلفت، تنگی و سختی ہو یا فراخی و وسعت، خوشحالی ہو یا بدحالی، نفع ہو یا نقصان اور موت ہو یا حیات، ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ سے باہر اور اس قضا و قدر الٰہی کے مطابق نہ ہو جس کو کاتب تقدیر نے زمین و آسمان کی پیدئش سے بھی پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا ہے اور جس چیز کا وقوع پذیر ہونا لکھا جا چکا ہے وہ ہر حالت میں اور ہر صورت میں وقوع پذیر ہو کر رہے گی اس کو نہ انسانی حرکت و سکون کا نظام روک سکتا ہے اور نہ تدبیر وسعی، پس خواہ خوشی کی حالت پیش آئے یا ضرر و تکلیف کی، بہر صورت شکر ادا کرنا لازم ہے نیز اس بات کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ بندہ اپنے دشمن و مخالف، اپنی تکلیف و مصیبت اور ضرر و نقصان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کا اسی صورت میں مستحق ہوتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں کی وجہ سے پیش آنے والے رنج والم پر صبر کرے اور کسی بھی حالت میں اپنی تقدیر وحالت کا شکوہ نہ کرے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں بڑی اچھی بات لکھی ہے ہر مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ قرار دے اور اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس کے مطابق عمل کرے، تاکہ دنیا وآخرت میں سالم و محفوظ رہے اور دونوں جہان میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب عزت و سرفرازی سے نوازا جائے بعض روایات میں ان الفاظ تجدہ تجاہک کے بعد یہ عبارت بھی نقل کی گئی ہے۔ تعرف الی اللہ فی الرخاء یعرفک فی الشدائد فان استطعت ان تعمل للہ بالرضاء فی الیقین فافعل فان لم تستطع فان فی الصبر علی ماتکرہ خیراکثیرا واعلم ان النصر مع الصبر والفرج مع الکرب وان مع العسر یسرا ولن یغلب عسر یسرین یعنی خوشحالی و شادمانی کی حالت میں نعمت شناسی اور طاعت حق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پہچانو یعنی اس کی یاد سے غافل نہ ہو اور اس کی شکر گزاری کرتے رہو۔ اگر ایسا کرو گے تو اس کے بدلہ میں یقینا اللہ تعالیٰ بھی تمہیں تنگی و سختی کی حالت میں پہنچائے گا، یعنی وہ تمہیں اس تنگی و سختی سے نمٹنے کی طاقت وقوت، اس سے گلو خلاصی کا راسہ اور حاجت براری کی نعمت عطا فرمائے گا (پس اگر تم یقین کے مرتبہ پر رضا و خوشی کے ساتھ اللہ کی خاطر کوئی کام کرسکتے ہو تو اس کام کو یقینا کرو کیونکہ بلاشبہ بہت بڑا کام ہے اور اگر تم کوئی ایسا کام نہ کرسکو اور نعمت کی شکر گزاری کا حق پوری طرح ادا نہ کرسکو تو جانو کہ آفات و مصائب میں خواہ تنگی و سختی ہو یا وسعت و خوشحالی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی چیز پیش آتی ہے وہ یقینا نعمت ہی ہوتی ہے اور خواہ ظاہر خواہ باطن کے اعتبار سے اس کے لطف کرم ہی کی ضامن ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص شکر گزاری کا حق پوری طرح ادا نہ کرسکے تو پیش آنے والی تنگی وسخیت پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک بڑی فضیلت رکھتا ہے اور جان لو کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ وہ اطاعت حق اور ترک معصیت پر صابر اور ثابت قدم رہے اور وسعت و کشادگی دراصل رنج والم کے ساتھ ہے یعنی ہر تنگی و سختی کے بعد وسعت و کشادگی آتی ہے اور رنج وغم کے بعد راحت و شادمانی کا دروازہ کھلتا ہے اور بیشک عسرت و سختی کے ساتھ خوش حالی و آسانی بھی ہے یعنی جب کسی آدمی پر سختی وتنگی آتی ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ خوش حالی و آسانی بھی عطا فرماتا ہے اور ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں ہوسکتی یعنی اگر انسان کسی تنگی و سختی میں مبتلا ہو تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس کے عوض دو آسانیاں پائے گا ایک تو اسی دنیا میں کہ اللہ تعالیٰ ہر سختی کے بعد آسانی پیدا کرتا ہے اور دوسری آسانی آخرت میں بصورت اجر وثواب حاصل ہوگی جیسا کہ مسلمانوں کی تاریخ سے ثابت ہے جب کہ وہ دنیا میں تنگی و سختی اور مصائب وآلام میں مبتلا ہوئے اور انہوں نے صبر و عزیمت کے ساتھ ان سخت حالات کو برداشت کیا تو اس کے بعد ان کو پہلے تو اس دنیا میں قدرتی مدد و نصرت کے ذریعہ فتح و کامرانی اور عزت و حشمت اور ترفہ و خوشحالی کی نعمت ملی اور پھر انہیں آخرت میں وہاں جنت کی قیمتی راحتیں، بلند مراتب و درجات اور دیدار مولیٰ کی نعمت عظمی حاصل ہوگی۔
Top