مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5187
توکل اور صبر کے بارے میں کچھ مفید باتیں
جاننا چاہئے کہ جو چیزیں انسان کے لئے عبادت الٰہی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان میں سب سے سخت رکاوٹ معاشی زندگی کے تفکرات یعنی کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کا فکر و خیال ہے، ظاہر ہے کہ انسان کا نفس اپنے وجود وبقاء کے لئے جن چیزوں کا محتاج ہے ان کی طرف اس کا رجحان اور مطالبہ ایک فطری تقاضا ہے چناچہ وہ بجا طور پر کہہ سکتا ہے کہ میں ہر چیز سے باز آیا۔ زہد وتقویٰ بھی اختیار کیا، دنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھتا، لیکن ان چیزوں کا کیا علاج کروں جو میرے وجود وبقا کے لئے ضروری ہیں۔ جیسے کھانا پینا اور لباس وغیرہ۔ اور یہ بھی بالکل ظاہر بات ہے کہ یہ چیزیں یوں ہی حاصل نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے حصول کے لئے کسب وعمل، جہد وسعی اور لوگوں کے ساتھ ربط وضبط اور میل جول اختیار کرنا ضروری ہے پس شریعت نفس کے اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے وہ سب سے یقینی راہ دکھاتی ہے جس کو توکل کہا جاتا ہے، کیونکہ توکل بذات خود وہ واحد قوی ذریعہ ہے جس پر اگر انسان صدق و اخلاص کے ساتھ عامل ہوجائے تو اللہ کی طرف سے ضروریات زندگی کی تکمیل خود بخود ہونے لگتی ہے اور اس راہ کو اختیار کرنے کی وجہ سے نہ صرف نفس کی تشویش رفع ہوجاتی ہے بلکہ کمال ایمان کا درجہ بھی نصیب ہوجاتا ہے، اس کے برخلاف توکل کو ترک کردینے والا نہایت سخت تفکرات و اوہام میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اس کو سکون و اطمینان کے ساتھ طاعت و عبادات کا موقع نصیب ہوتا ہے اور نہ اس اطاعت و عبادت میں لذت و حلاوت نصیب ہوتی ہے اور روزی کا فکر وغم اس کو اس طرح پراگندہ خاطر اور پریشان حال بنا دیتا ہے کہ وہ کوئی بھی نیک عمل یقینی قوت وحالت کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا، لہٰذا توکل کی راہ اختیار کرنا ہر شخص کے لئے لازمی امر ہے کہ اس کے بغیر وہ اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ ایک طویل حدیث میں جو آگے آئے گی فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ قوی ہو تو اس کو چاہئے کہ توکل کی راہ اختیار کرے۔ اور توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے تمام امور کا وکیل اور اپنی بھلائی و بہتری کا ضامن جان کر بس اسی پر اعتماد و بھروسہ کرے اور جانے کہ اللہ تعالیٰ نے قسمت میں جو کچھ لکھ دیا ہے وہ ہرگز معدوم نہیں ہوگا اور حکم الٰہی کسی بھی حالت میں ادل بدل نہیں سکتا، خواہ بندہ مانگے یا نہ مانگے، نیز اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی روزی کا ضامن ہے، جب کہ اس نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی ضرور دے گا، چناچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا) اور اس بات پر بھی قسم کھائی کہ آیت (فورب السماء والارض انہ لحق ) پس غور کرنے کو مقام ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے وعدہ کی صداقت کے جز و ایمان ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اگر وہ اس کے ضامن ہونے پر اعتماد نہ رکھے اور اس کے وعدہ پر باور نہ کرے تو اس کا ایمان کہاں رہے گا اور وہ کس طرح اللہ کا بندہ کہلانے کا مستحق قرار پائے گا۔ ہر مومن کو چاہئے کہ وہ دنیا، دنیا کے مال و اسباب اور کسب وعمل کو محض حصول رزق کا ایک ظاہری وسیلہ و بہانہ اور سبب سمجھے، اس سے زیادہ اور کچھ نہ جانے اور یہ یقین رکھے کہ حقیقی رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے، وہ اتنی بڑی قدرت کا مالک ہے کہ اس کے نزدیک ظاہری وسائل و اسباب کی چنداں اہمیت نہیں ہے وہ توکل و اعتماد کرنے والوں کو بےسبب و وسیلہ اور بلاکسب وعمل بھی روزی پہنچاتا ہے، جیسا کہ فرمایا آیت (ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ)۔ اسی طرح حصول معاش کے لئے وسائل و ذرائع کو اختیار کرنے اور کسب وعمل میں مشغول ہونے کو بھی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ نظام کائنات کا ایک سلسلہ اور رزق پہنچنے کا ایک ظاہری سبب جانے اس پر دل سے اعتماد و بھروسہ نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اطمینان رکھے اور جانے کہ اگر کوئی کسب وعمل نہ کروں گا تو بھی اللہ تعالیٰ روزی پہنچائے گا، یہ توکل کا کم سے کم درجہ ہے جو ایمان کے لئے ضروری ہے اور عام مسلمانوں کا مرتبہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت (وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین) اس سے اعلیٰ درجہ تسلیم ہے، یعنی بندہ کا اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کردینا، اللہ کے علم پر کفایت کرنا اور اپنے دل میں کسی بھی طرح کا کوئی رد و بدل نہ رکھنا یہ اولیاء اللہ کا مرتبہ ہے اور آیت (وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون) سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے۔ ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ حصول معاش کے لئے اسباب و ذرائع اختیار کرنا اور کسب وعمل میں مشغول ہونا توکل کے منافی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسباب و ذرائع اور کسب وعمل بھی نظام قدرت کا ایک حصہ ہے اور اللہ کی طرف سے ایک حد تک انسان کو ان چیزوں کا مکلف بھی قرار دیا گیا ہے، البتہ جو چیز توکل کے منافی ہے، وہ بس یہ ہے کہ حصول معاش کے ظاہری، اسباب و ذرائع اور کسب وعمل پر دل سے اعتماد نہ کیا جائے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ رزق پہنچنے کا حقیقی سبب یہی چیزیں ہیں اگر انسان کوئی کسب وعمل نہ کرے اور محض اللہ پر توکل کر کے بیٹھ جائے تو اس کو رزق پہنچ ہی نہیں سکتا، یہ عقیدہ و خیال ایمان کے منافی ہے اور اس کو شرک خفی کہا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص اسباب و ذرائع کو اختیار کرے اور کسب وعمل میں مشغول ہو لیکن اس کے دل کا اعتماد صرف اللہ پر ہو تو وہ شخص بھی یقینا مومنین میں سے ہوگا، اگرچہ توکل کا اعلی درجہ یہی ہے کہ بندہ اپنے ہاتھ پاؤں کو تمام اسباب و ذرائع سے دور رکھے اپنے تمام معاملات میں اللہ ہی پر اعتماد کرے اور اپنے تمام امور اسی کے سپرد کرے بشرطیکہ ہر حالت میں خواہ تنگی ہو یا فراخی، قوت ایمان کے سبب اللہ پر اس کا کامل اعتماد یکساں رہے، غیر اللہ سے امید منقطع رکھے اور اس راہ میں جو بھی رنج و مصیبت پیش آئے اس کو صبر و رضا کے ساتھ برداشت کر کے ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں مشغول رہے اور جو شخص ان امور پر پوری طرح قادر نہ ہو سکے تو ان کے حق میں افضل یہی ہوگا کہ وہ دل سے اللہ پر اعتماد رکھتے ہوئے ظاہری اسباب و ذرائع کو اختیار کرے اور کسب وعمل میں مشغول ہو۔ اسی طرح محض کسل وسستی اور عار کی وجہ سے یا بطور یا ہاتھ پاؤں کو معطل کردینا اور کسب وعمل سے باز رہنا قطعا روا نہیں ہے کیونکہ اکثر انبیاء اور اولیاء کا یہی معمول رہا ہے کہ انہوں نے حصول معاش کے لئے ظاہری اسباب و ذرائع کو اختیار کیا اور کسب وعمل سے باز نہیں رہے کہ جو شخص کسب وعمل کی وجہ سے اپنی دینی زندگی میں کوئی نقصان اور اپنے باطنی احوال میں رخہ پڑتا ہوا دیکھے تو اس کے لئے بہر صورت یہی ضروری ہوگا کہ وہ سب چیزوں سے تعلق منقطع کر کے بس ذکر وفکر اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے تاکہ واصل بحق ہو۔ متوکل کو ایسے کام و ذریعہ سے باز رہنا کہ جس کے بغیر کار برآری قطعا ممکن نہ ہوا اور سنت اللہ اسی کے مطابق جاری ہو، ہرگز روا نہیں ہے بلکہ حرام ہے، مثلا کھانا ہاتھ کے ذریعہ کھایا جاتا ہے اور سنت اللہ اس کے مطابق جاری ہے کہ جو شخص کوئی چیز کھانا چاہے اس کو ہاتھ سے اٹھا کر منہ میں ڈالے، اب اگر کوئی شخص متوکل یہ گمان کرے کہ اس چیز کو کھانے کے لئے ہاتھ کا ذریعہ اختیار کرنا توکل کے منافی ہے اور اس امید میں بیٹھا رہے کہ یہ چیز خود بخود (اٹھ کر منہ میں جائے گی کھاؤں گا، یہ توکل نہیں ہے بلکہ اس کو محض جنون و حماقت سے تعبیر کی اجائے گا، ایسے امور میں توکل کی کار فرمائی کی بس حد یہ ہے کہ یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ نے کھانا اسی لئے پیدا کیا ہے کہ اس کو کھایا جائے، سب کا خالق و رازق بھی وہی ہے اور یہ ہاتھ اس عمل یعنی کھانے کا سبب و ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے بس ہاتھ کو کھانے کا ظاہر ذریعہ جان کر کھانے کے لئے استعمال کرے لیکن دل سے اس پر اعتماد نہ کرے اور یہ جانے کہ جن لوگوں کے ہاتھ نہیں ہوتے ان کے کام بھی بہحال سر انجام پاتے ہیں جہاں تک کسی ایسے کام کا تعلق ہے کہ جس کی انجام دہی کا ذریعہ اگرچہ ہاتھ ہی ہے لیکن وہ ایسا قطعی ذریعہ نہیں ہے کہ اس کے بغیر کام انجام ہی نہ پاسکتا ہو جیسے سفر کے دوران خرچ اور زاد راہ تھامنا وغیرہ، تو ایسی صورت میں ہاتھوں کو بطور ذریعہ استعمال کرنے سے باز رہنا روا ہوسکتا ہے کیونکہ ایسا ممکن اور کثیر الوقوع ہے کہ جو لوگ خرچ اور زاد راہ لے کر نہیں چلتے ان کا سفر بھی پورا ہو ہی جاتا ہے، تاہم واضح رہے کہ زاد راہ اور سفر خرچ پر، بلکہ بقدر ضرورت سفر خرچ اور زاد راہ لے کر چلنا سنت ہے اور سلف کے معمولات سے بھی ثابت ہے۔ لیکن حق تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد بھروسہ کے سبب سفر خرچ اور زاد راہ وغیرہ نہ لینا تو متوکلین کے اعلی درجات میں سے ہے۔ جو شخص عیالدار ہو اور اس کے اہل و عیال حالات کی تنگی پر صبر نہ کرسکتے ہوں اور وہ اس بات کی اجازت نہ دیتے ہوں کہ وہ شخص توکل کے سبب کوئی کسب وعمل نہ کرے اور ذرائع سے اجتناب کرے۔ اپنے اہل و عیال کے لئے ایک سال تک کا اور اپنی ذات کے لئے چالیس روز تک کا بقدر ضرورت غذائی ضروریات کا سمان اکٹھا بھروا کر رکھ لینا توکل کے منافی نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص از راہ توکل غذائی ضروریات کی چیزیں پہلے سے بھروا کر نہ رکھے اور سب کچھ ترک کر دے بشرطیکہ اللہ پر اس کا پورا اعتما و اطمینان ہو تو یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے وہ اعلیٰ درجہ کا حامل ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لئے بڑی زبردست قوت اور ہمت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جس شخص کو اتنی قوت و ہمت میسر نہ ہو اور اگر وہ غذائی ضروریات کا سمان اکٹھا بھروا کر نہ رکھنے کی صورت میں طاعت و عبادت میں اطمینان و سکون اور دل جمعی حاصل نہ کرسکتا ہو تو اس کے لئے یہی افضل ہوگا کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی غذائی ضروریات کے لئے غلہ وغیرہ اکٹھا بھروا کر رکھ لے۔ رنج و پریشانی اور بیماری کا گلہ شکوہ نہ کرنا اور جو شخص طبیب ومعالج نہ ہو اس کے سامنے بلا ضرورت اپنے مرض کو ظاہر نہ کرنا توکل کے لئے شرط ہے۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ توکل اسی شخص کو راست آتا ہے جو توحید آشنا اور زہد صفت ہو۔ اس موقع پر توحید سے مراد یہ ہے کہ بندہ یہ جانے کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں اور جانے کہ سب کا حقیقی محرک وعامل بس حق تعالیٰ ہے اس کے علاوہ کوئی ذات ایسی نہیں ہے جس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی جنبش نہ کرسکے اور جہاں بھی جو کچھ بھی آتا جاتا ہے سب کا منبع ومصدر اسی ذات واحد کی مرضی ومشیت ہے، جس شخص کے دل پر یہ بات غالب آجائے گی اس کو بےاختیار توکل حاصل ہوجائے گا۔ یہ تو توکل کے بارے میں کچھ باتیں ہوئی۔ اب صبر کے بارے میں جاننا چاہئے کہ صبر ایک ایسی راہ ہے جس کو اختیار کئے بغیر کسی مومن کے لئے کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ ایمان کی سلامتی اور عبادت میں اطمینان و سکون کے ساتھ مشغولیت کا انحصار صبر ہی پر ہے۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا، اہل ایمان کے لئے آفات و مصائب اور رنج و آلام کے ایک گھروندہ کے سوا اور کچھ نہیں، مومن کی زندگی کا وہ کون سا لمحہ ہوتا ہے جس میں اس کو کسی نہ کسی طرح کی جسمانی اور روحانی اذیت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو؟ لہٰذا اس صورت میں ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ صبر کی راہ اختیار کرے تاکہ اس کا ایمان بھی سلامت رہے اور طاعت و عبادت میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ مشغول رہ سکے، کیونکہ دل گرفتگی رنج خوری جزع وفزع اور تاسف و حسرت کے عالم میں عبادت پورے کیف ونشاط کے ساتھ ادا نہیں ہوسکتی، علاوہ ازیں صبر کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بیشمار بھلائیاں اور سعادتیں عطا کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے مثلاً دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر اور دیگر مہمات میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (فاصبر ان العاقبۃ للمتقین)۔ دوسرے صبر کی وجہ سے بندہ اپنی مراد کو پہنچتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (وتمت کلمۃ ربک الحسنی علی بنی اسرائیل بما صبروا)۔ تیسرے صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کو قیادت و امامت کا درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے جیسا کہ فرمایا۔ (وجعلناہم ائمۃ یہدون بامرنا لما صبروا)۔ چوتھے صبر کرنے والا بندہ حق تعالیٰ کی طرف سے تعریف وتوسیف سے نوازا جاتا ہے جیسا کہ فرمایا۔ آیت (انا وجدناہ صابرا نعم العبد انہ اواب)۔ پانچویں صابر بندوں کو بشارت دینے کا حکم فرمایا گیا ہے جیسا کہ فرمایا وبشر الصابرین۔ چھٹے صبر کرنے والے بندوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے جیسا کہ فرمایا آیت (ان اللہ یحب الصابرین)۔ ساتویں جو بندے صبر کرتے ہیں وہ جنت میں بلند تر درجات پائیں گے جیسا کہ فرمایا آیت (اولئک یجزون الغرفۃ بماصبروا)۔ آٹھویں صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام کا اعزاز وشرف عطا ہوا ہے جیسا کہ فرمایا آیت (سلام علیکم بما صبرتم)۔ اور نویں یہ کہ بندے صبر کرتے ہیں اور وہ بےحساب اور بےانتہا اجر وثواب سے نوازے جائیں گے جیسا کہ فرمایا آیت (انما یوفی الصابرون اجرہم بغیر حساب ) پس صبر اتنی بڑی فضیلت اور اتنا عظیم وصف ہے کہ اس پر کاربند رہنے کی ہر مومن کو کوشش کرنا چاہئے۔ اور اس کے حاصل کرنے کو نہایت اہم اور غنیمت جاننا چاہئے اور صبر اصل میں یہ ہے کہ اپنے نفس کو جزع سے روکا جائے اور جزع اس کو کہتے ہیں کہ جب کوئی سخت حالت اور آفت و پریشانی پیش آئے تو اس پر اضطراب و گھبراہٹ کا اظہار کیا جائے اپنے عجز کا رونا رویا جائے۔ اور سختی و پریشانی سے بطریق قطع وحکم گلو خلاصی کا ارادہ کیا جائے۔ لہٰذا ان چیزوں کو ترک کرنا صبر کہلاتا ہے۔ صبر کا وصف حاصل کرنے کا نہایت مفید اور نفسیاتی طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسی صورت حال پیش آئے کہ جس کی وجہ سے نفس اضطرب و بےقرار میں مبتلا ہونے لگے۔ اور طبعی طور پر رنج واذیت محسوس ہو تو یہ سوچنا چاہئے کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہوا ہے وہ ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا، اس کی وجہ سے جزع وفزع کرنا اور رونا، دھونا، شکوہ و شکایت کرنا ایک قطعی لاحاصل چیز ہے کہ ان باتوں سے اس صورت حال میں کوئی تغیر تبدل، کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی، علاوہ ازیں صبر کا جو ثواب تلف ہوتا ہے وہ مزید نقصان ہے۔ یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ اپنی حیثیت وحالت کے اعتبار سے صبر کی چار قسمیں ہیں ایک تو صبر وہ ہے جو نفس کو طاعت و عبادت کی استقامت و پابندی کی محنت ومشقت برداشت کرنے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے، دوسرا وہ صبر ہے جو گناہوں سے اجتناب کرنے کی صورت میں اختیار کیا جائے، تیسرا وہ صبر ہے جو دنیا کی زائد از ضرورت چیزوں سے قطع تعلق کرلینے کی صورت میں اختیار کیا جائے اور چوتھا صبر وہ ہے جو کسی دینی و دنیاوی آفت و مصیبت اور سختی و پریشانی کو برداشت کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص صبر کی ان چاروں قسموں کو اختیار کرلے وہ طاعت عبادت کی راہ پر سکون و استقامت کے ساتھ گامزن رہے گا، گناہوں سے محفوظ مامون رہے گا، دنیا کی آفات وبلیات سے سلامتی اور آخرت کے عذاب سے نجات پائے گا، علاوہ ازیں بہت زیادہ اجر وثواب سے نوازا جائے گا اور جو شخص مذکورہ بالا صورتوں میں صبر کو اختیار نہیں کرے گا اور جزع وفزع کی راہ پکڑے گا وہ تمام نعمتوں سے محروم رہے گا اور اول تو وہ دل جمع اور اطمینان و سکون کے ساتھ عبادت نہیں کرسکے گا اور کچھ اگر کرے گا بھی تو بےصبر کے گناہ اس کو کالعدم کردیں گے۔
Top