مشکوٰۃ المصابیح - توکل اور صبر کا بیان - حدیث نمبر 5036
وعن أبي البختري عن رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لن يهلك الناس حتى يعذروا في أنفسهم . رواه أبو داود
گناہ کی زیادتی موجب ہلاکت ہے
حضرت ابوالبختری، نبی کریم ﷺ کریم ﷺ کے صحابہ ؓ اجمعین میں سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگ اس وقت تک ہرگز ہلاک و برباد نہیں ہوں گے جب تک کہ ان سے بہت زیادہ گناہ اور برائیاں صادر ہونے لگیں گے۔ (ابو داؤد)

تشریح
لفظ یعذروا یا کے پیش، عین کے جزم اور ذال کے زیر کے ساتھ اعذار سے مشتق ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ اعذار کے معنی ہیں بہت گناہ گار اور باعیب ہونا۔ اس طرح قاموس میں لکھا ہے کہ اعذر فلان ای کثرت ذنوبہ وعیوبہ (یعنی جب اہل عرب یہ کہتے ہیں کہ اعذر فلان یعنی فلاں شخص نے اعذار کیا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص سے بکثرت گناہ اور عیوب صادر ہوئے) مفہوم کے اعتبار سے حدیث کے اس جملہ میں اعذار کا لفظ گویا سلب عذر کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جب کسی شخص کے گناہ اور عیوب بکثرت ہوجائیں تو پھر اس پر حق تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے اور لوگوں کی طرف سے ان کو ان گناہ وعیوب سے روکنے اور منع کرنے میں کوئی عذر حائل نہیں رہ جاتا، لہٰذا اس شخص نے اپنے گناہوں اور عیوب کی کثرت کے سبب گویا اس عذر کو ختم کردیا جو اس کو عذاب الٰہی سے محفوظ رکھتا۔ اعذار کا لفظ صاحب عذر یعنی عذر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ معنی بھی حدیث کے مفہوم سے مطابقت رکھتے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت و بربادی میں مبتلا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے اور اپنی برائیوں کے بارے میں دور دراز کی تاویلیں اور ناروا عذر و معذرت کرنے کا رویہ اختیار نہ کریں۔ بعض روایتوں میں یہ لفظ یعذروا (یاء کے زبر کے ساتھ) منقول ہے جس کا مادہ اشتقاق عذر (عین کے زبر کے ساتھ) ہے اور اس کے معنی ہیں معذور رکھنا۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت و تباہی میں مبتلا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگوں کو اس طرح معذور و مجبور نہ کردیں کہ وہ ان کو کثرت گناہ اور برائیوں میں مبتلا دیکھ کر ان کو ان گناہوں اور برائیوں سے نہ روک سکیں اور نہ ان پر ملامت کرسکیں۔ بہر حال تینوں صورتوں میں حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کے مصائب وآفات اور ہلاکت و تباہی میں صرف اسی وقت مبتلا کرتا ہے جب کہ وہ گناہوں اور خلاف شرع امور کے ارتکاب میں منہمک ہوجاتے ہیں، احکام الٰہی کی نافرمانی کثرت سے کرنے لگتے ہیں اور جب اللہ کے نیک بندے ان کو گناہوں اور برائیوں سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے بلکہ نہایت بےحسی اور لاپرواہی کے ساتھ اپنی اختیار کی ہوئی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔
Top