مشکوٰۃ المصابیح - توکل اور صبر کا بیان - حدیث نمبر 5034
وعن أبي ثعلبة في قوله تعالى ( عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم ) . فقال أما والله لقد سألت عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بل ائتمروا بالمعروف وتناهوا عن المنكر حتى إذا رأيت شحا مطاعا وهوى متبعا ودينا مؤثرة وإعجاب كل ذي رأي برأيه ورأيت أمرا لا بد لك منه فعليك نفسك ودع أمر العوام فإن وراءكم أيام الصبر فمن صبر فيهن قبض على الجمر للعامل فيهن أجر خمسين منهم ؟ قال أجر خمسين منكم . رواه الترمذي وابن ماجه
آخر زمانہ میں دین پر عمل کرنے کی فضیلت واہمیت
حضرت ابوثعلبہ ؓ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد۔ (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ) 5۔ المائدہ 105)۔ کی تفسیر میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا جان لو اللہ کی قسم میں رسول کریم ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا (کہ کیا میں اس آیت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے باز رہوں؟ ) تو آپ ﷺ نے فرمایا (کہ ہرگز نہیں) تم اس فریضۃ کی ادائیگی سے باز نہ رہو) بلکہ نیکیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب تم بخل کو دیکھو کہ لوگ اس کی اتباع کرنے لگے ہیں، جب تم خواہشات نفس کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کو آخرت پر ترجیح دینے لگے ہیں، جب تم دیکھو کہ ہر عقل مند اور کسی مسلک کا پیرو اپنی ہی عقل اور اپنے ہی مسلک کو سب سے اچھا اور پسندیدہ سمجھنے لگا ہے (کہ نہ تو وہ کتاب وسنت اور اجماع امت اور قیاس کی طرف نظر کرتا ہے اور نہ علماء اور اہل حق کی طرف رجوع کرتا ہے بلکہ محض اپنے نفس ہی کو سب سے بڑا حاکم اوعر مفتی سمجھنے لگا ہے) اور جب تم کسی ایسی چیز کو دیکھو کہ جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو تو (ان سب صورتوں میں) اپنے آپ کو لازم پکڑ لو (یعنی اپنی ذات کو گناہوں سے محفوظ رکھو) اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو (بلکہ ان سے گوشہ نشینی اختیار کرو) کیونکہ تمہارے سامنے آخرزمانہ میں ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا ضروری ہوگا (اور ان ایام کی ابتداء خلفاء راشدین کے بعد ہی ہوگئی ہے اور تاحال ان کا سلسلہ جاری ہے) لہٰذا جس شخص نے ان دنوں میں صبر کرلیا (یعنی اس سخت زمانہ میں دین پر عمل پیرا رہنے کی کلفت ومشقت کو برداشت کرلیا) اس کی حالت یہ ہوگی کہ گویا ان سے اپنے ہاتھ میں انگارا لے لیا ہے اور ان دنوں میں جو شخص دین و شریعت کے احکام پر عمل کرے گا اس کو ان پچاس لوگوں کے عمل کے برابر ثواب ملے گا جو اس شخص جیسے عمل کریں (اور ان کا تعلق نہ ان سخت ایام سے ہو اور نہ ان کو دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں وہ تکالیف و مصائب برداشت کرنا پڑے جو اس شخص کو برداشت کرنا پڑیں گے)۔ صحابہ ؓ نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ کیا ان پچاس لوگوں کے عمل کا اعتبار ہوگا جو آپ ﷺ کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے پچاس آدمیوں کا اجر وثواب۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
وریت امر الابدلک (اور جب تم ایسی چیز دیکھو جس کے علاوہ چارہ کار نہ ہو) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسی برائی کا دور دورہ ہو کہ جس کی طرف خواہش نفس کا میلان ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے جبلت طبعی کی بناء پر بےاختیار اس برائی میں مبتلا ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلینا لازم ہے تاکہ اس برائی کا ارتکاب نہ ہو۔ اور بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے لابدلک سے مراد اپنے عجز کے سبب نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے معذور رہنا ہے۔ یعنی اگر تم کسی ایسی برائی کو دیکھو جس سے لوگوں کو روکنے اور منع کی طاقت تم نہ رکھتے ہو اور اس وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے سکوت و اعراض کرتے ہو تو اس صورت میں تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلو جو اس برائی میں مبتلا ہیں۔ یہ معنی کتاب کے ان نسخوں کی روایت کے مطابق ہیں جن میں لابدلک (جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو) کے بجائے لایدلک (بمعنی لاقدرۃ لک علیہ یعنی جس سے روکنے اور منع کرنے کی طاقت وقدرت تمہیں حاصل نہ ہو) کے الفاظ ہیں۔ یا مذکورہ جملہ کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر تمہیں کوئی ایسا امر درپیش ہو جو تمہارے لئے نہایت ضروری ہو اور سخت اہمیت کا حامل ہو اور اس کی وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دے سکتے ہو بایں طور کہ اگر تم اپنی توجہ اور اپنے وقت کو اس فریضہ کی انجام دہی میں لگاتے ہو تو تمہارے وہ ضروری امر فوت ہوجاتا، ہو تو اس صورت میں تم ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلو، جو برائیوں میں مبتلا ہیں اور جن کو ان برائیوں سے روکنے سے تم معذور ہو۔ اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ گناہ کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہیں مگر تم طاقت قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنے اور برائی سے روکنے سے سکوت و اعراض کرنا ضروری سمجھتے ہو تو اس صورت میں تمہیں چاہئے کہ بس اپنی ذات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے بجائے خود اپنے آپ کو گناہوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے اور نیک کاموں کو اختیار کرنے میں مشغول رہو، نیز لوگوں کے معاملات و حالات اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو، وہ اگر چاہے تو اپنے فضل و کرم سے خود ہی ان کو راہ راست پر لے آئے گا ورنہ ان کو سخت سزا دے گا۔ اس حکم کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو بس اسی قدر ذمہ دار قرار دیتا ہے، جتنی ذمہ داری اٹھانے کی وہ طاقت وقدرت نہ رکھتا ہو۔ گویا اس نے اپنے ہاتھ میں انگارہ لے لیا ہے یہ جملہ دراصل مشقت وکلفت برداشت کرنے سے کنایہ ہے یعنی اس زمانہ میں دین پر چلنا اور دنیا سے بےرغبتی رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا بلکہ یہ کام اتنا سخت اور اس قدر مصائب اور کلفتوں سے بھرپور ہوگا کہ جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پر دہکتا ہوا انگارہ رکھ لے اور پھر اس کی تکلیف واذیت کو برداشت کرلے۔ حدیث کے آخری جزء سے مذکورہ صفت (یعنی دین پر عمل پیرا ہونے کی کلفت ومشقت برداشت کرنے اور اس پر صابر وشاکر رہنے) میں صحابہ ؓ پر آخر زمانہ کے دیندار لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جزوی فضیلت، کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوسکتی، چناچہ اوب عمروبن عبدالبر نے، جو مشاہیر محدثین میں سے ہیں، اپنی کتاب استیعاب میں اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس امت میں صحابہ ؓ کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو کسی صحابہ ؓ کے مرتبہ جیسی فضیلت رکھا تو بلکہ صحابی سے زیادہ فضیلت کا حامل ہو۔ انہوں نے اپنے اس قول کی دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے، لیکن علماء کا مختار قول اس کے خلاف ہے تاہم واضح رہے کہ یہ اختلاف اقوال بس ان صحابہ ؓ کی حد تک ہے جو آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لائے اور واپس اپنے وطن چلے گئے، اس سے زیادہ صحبت رسول ﷺ ان کو حاصل نہ رہی، ورنہ جہاں تک ان صحابہ کرام ؓ کی ذات کا تعلق ہے جنہیں آنحضرت ﷺ کی طویل صحبت ورفاقت کا شرف حاصل رہا ہے اور جو شب وروز آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور انہوں نے آثار وانوار صحبت جمع کئے ان کی ذات اس اختلاف اقوال سے ماوراء ہے کہ ان کے بارے میں کسی بھی عالم کا یہ قول نہیں ہے کہ اس امت کوئی بھی فرد ان صحابہ ؓ میں سے کسی کے رتبہ کے بقدر یا اس سے زائد فضیلت رکھ سکتا ہے، بلکہ ہم تو جمہور علماء کے قول کے مطابق بلا استثناء تما ہی صحابہ ؓ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شرف صحابیت کا مرتبہ ہر ایک صحابی کو حاصل ہے خواہ وہ آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر ایمان لر کر اپنے وطن چلے گئے ہوں اور خواہ تمام عمر آنحضرت ﷺ کی خدمت ورفاقت میں رہے ہوں اور یہ شرف بذات خود اس درجہ کا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی فرفد اس مرتبہ میں ان کا شریک نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس امت کا کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی بلا استثناء کسی بھی صحابی ؓ کے مرتبہ جیسی فضیلت نہیں رکھ سکتا۔ قوب القلوب میں کیا خوب لکھا ہے کہ جمال مصطفیٰ ﷺ پر پڑنے والی ایک ہی نظر سے وہ حقائق آشکارا ہوجاتے ہیں اور وہ مقام ومقصد حاصل ہوجاتا ہے جو دوسروں کو سالہا سال کے چلوں اور قرنہا قرن کی ریاضت و مجاہدہ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
Top