مشکوٰۃ المصابیح - توکل اور صبر کا بیان - حدیث نمبر 5032
وعن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال يا أيها الناس إنكم تقرؤون هذه الآية ( يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم ) فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الناس إذا رأوا منكرا فلم يغيروه يوشك أن يعمهم الله بعقابه . رواه ابن ماجه والترمذي وصححه . وفي رواية أبي داود إذا رأوا الظالم فم يأخذوا على يديه أوشك أن يعمهم الله بعقاب . وفي أخرى له ما من قوم يعمل فيهم بالمعاصي ثم يقدرون على أن يغيروا ثم لا يغيرون إلا يوشك أن يعمهم الله بعقاب . وفي أخرى له ما من قوم يعمل فيهم بالمعاصي هم أكثر ممن يعمله
برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد نہ کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے
حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) انہوں نے فرمایا لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو۔ آیت (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ) 5۔ المائدہ 105) یعنی اے مومنو! تم اپنے نفسوں کو لازم پکڑ لو جو شخص گمراہ ہوگیا ہے وہ تم کو ضرر نہیں پہنچائے گا جب کہ تم ہدایت یافتہ ہو (لہٰذا حضرت ابوبکر ؓ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو اور اس کے معنی کو عموم و اطلاق پر محمول کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے حالانکہ تمہارا یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ چناچہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ کسی خلاف شرع امر کو دیکھیں اور اس کی اصلاح وسرکوبی کے لئے کوشش نہ کریں اور لوگوں کو اس سے باز نہ رکھیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے عذاب میں مبتلا کردے۔ اس روایت کو ابن ماجہ (رح) اور ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ نیز ابوداؤد (رح) کی روایت میں یوں ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا) جب لوگ کسی کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی اس کو طلم کرنے سے نہ روکیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔ اور ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضور ﷺ نے فرمایا)۔ جس قوم میں گناہ و معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور اس قوم کے لوگ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ ان کی اصلاح وسرکوبی کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی اصلاح وسرکوبی کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کردے۔ ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضور ﷺ نے فرمایا) جس قوم میں گناہ و معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور اس قوم میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جو گناہ و معاصی کا ارتکاب نہیں کرتے (لیکن اس کے باوجود وہ اپنے میں کے گناہ گار لوگوں کو گناہوں سے باز نہ رکھیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا۔

تشریح
آخری روایت کے الفاظ کا حاصل یہ ہے کہ جب برے لوگوں کے مقابلہ میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو اور وہ اچھے لوگ اپنی کثرت کے باوجود ان لوگوں پر قابو نہ پائیں اور ان کو گناہ و معاصی کے راستہ سے نہ روکیں تو وہ یقینا عذاب اللہ کے مستوجب قرار پائیں گے کیونکہ ان کا اکثریت میں ہونا، برائیوں کو مٹانے پر قدرت رکھنے کے مترادف ہے۔ اور قدرت رکھنے کے باوجود برائیوں کی بیخ کنی کی جدوجہد اور سعی نہ کرنا ایک ایسی غفلت وتقصیر ہے جس پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ مذکورہ آیت کے بارے میں یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ یہ آیت اپنے حکم کے اعتبار سے عام ومطلق نہیں ہے بلکہ اس امر کے ساتھ مخصوص ومقید ہے کہ جو لوگ وعظ و نصیحت اور تنبیہ وتہدید کے باوجود برائی کا راستہ ترک نہ کریں، ان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کوئی اثر نہ ہو اور وہ اپنے اختیار کئے ہوئے راستہ پر مطمئن وخوش ہوں، جیسا کہ قرب قیامت میں لوگوں کا یہی حال ہوگا تو ایسے لوگوں کے بارے میں مذکورہ آیت کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کی برائیوں کا وبال ان بندگان اللہ کو کوئی نقصان وضرر نہیں پہنچا سکتا، جن کو اللہ نے ہدایت یافتہ بنایا ہے اور جو برائیوں کے راستہ سے دور رہتے ہٰں، اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اس آیت کو لوگوں نے حضرت ابن مسعود ؓ کے سامنے پڑھا (اور اس کا مطلب جاننا چاہا) تو انہوں نے فرمایا کہ تم جس زمانہ میں ہو وہ زمانہ اس آیت کا محمول نہیں ہے کیونکہ تمہارے زمانہ کے لوگ تو اچھی باتوں کو سنتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں، البتہ آخر میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب بندگان اللہ امر با معروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے تو لوگ ان کی باتوں کو نہیں سنیں گے، چناچہ یہ آیت اس آنے والے زمانہ کے بارے میں آگاہ کر رہی ہے اسی طرح حضرت ابوثعلبہ ؓ کی روایت جو آگے آرہی ہے اس پر دلالت کرتی ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھو، اگر تم نے گناہوں اور برائیوں سے خود کی حفاظت کرلی اور اس طرح ہدایت یافتہ بن گئے، نیز کسی وجہ سے تم امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے عاجز رہے تو پھر تمہیں ان لوگوں کی گمراہی کا وبال کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو خلاف شرع امور اور برائیوں کا ارتکاب کر کے گمراہ ہوگئے ہوں۔
Top