مشکوٰۃ المصابیح - توکل اور صبر کا بیان - حدیث نمبر 5029
وعن أسامة بن زيد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتابه في النار فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه فيجتمع أهل النار عليه فيقولون أي فلان ما شأنك ؟ أليس كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر ؟ قال كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه وأنهاكم عن المنكر وآتيه . متفق عليه
بے عمل واعظ وناصح کا انجام
حضرت اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن (امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مقدمات کے فیصلہ کے وقت) ایک شخص کو لایا جائے گا جس کو مستوجب عذاب قرار دے کر آگ میں ڈال دیا جائے گا اور آگ میں پہنچتے ہی ان کی انتڑیاں فورا باہر نکل پڑیں گی اور وہ انتڑیوں کو اس طرح پیسے گا جس طرح خراس کا گدھا اپنی چکی کے ذریعہ آٹے کو پیستا ہے (یعنی جس طرح چکی میں چلنے والا گدھا اپنی چکی کے گرد چلتا رہتا ہے، اسی طرح وہ شخص اپنی ان انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا اور ان کو پیروں تلے روندتا رہے گا) چناچہ (اس شخص کو اس حالت میں دیکھ کر) دوزخی (یعنی اس کے زمانہ کے فاسق و فاجر لوگ) اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اے فلاں شخص! تمہارا یہ کیا حال ہے؟ تم تو ہمیں نیک کام کی تلقین و نصیحت کیا کرتے تھے اور برے کام سے منع کرتے تھے وہ شخص جواب دے گا کہ بیشک میں تمہیں نیک کام کی تلقین کیا کرتا تھا مگر خود اس نیک کام کو نہیں کرتا تھا اور تمہیں برے کام سے منع کرتا تھا مگر خود اس برے کام سے باز نہیں رہتا تھا۔۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، اس شخص کو یہ سزا، عمل نہ کرنے کی وجہ سے ملے گی، نہ کہ اس وجہ سے ملے گی کہ وہ جب خود عمل نہیں کرتا تھا تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کیوں انجام دیتا تھا، چناچہ اگر وہ اس فریضہ کو بھی ترک کرتا تو وہ مذکورہ عذاب سے بھی سخت عذاب کا مستوجب ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس پر دو واجب کے ترک کا گناہ ہوتا۔
Top