مشکوٰۃ المصابیح - امر بالمعروف کا بیان - حدیث نمبر 5018
وعن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تكونوا إمعة تقولون إن أحسن الناس أحسنا وإن ظلموا ظلمنا ولكن وطنوا أنفسكم إن أحسن الناس أن تحسنوا وإن أساؤوا فلا تظلموا . رواه الترمذي . ويصح وقفه على ابن مسعود
برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے
حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم امعہ نہ ہو یعنی یہ نہ کہو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ طلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے آپ کو اس امر پر قائم رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو اور اگر لوگ برائی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا۔

تشریح
اِمَّعَۃ اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی کوئی رائے اور عقل نہ رکھتا ہو اور بےسمجھے بوجھے دوسروں کی رائے اور دوسروں کے کہنے پر چلتا ہو۔ یہاں حدیث میں اس لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو یہ کہے کہ لوگ جیسا سلوک میرے ساتھ کریں گے ویسا ہی سلوک میں بھی ان کے ساتھ کروں گا، اگر وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ بھلائی کروں گا اور اگر وہ میرے ساتھ برائی کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ برائی کروں گا، چناچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم ایسے آدمی مت بنو، کیونکہ یہ دین و دانش کے خلاف بات ہے بھلائی کا بدلہ بھلائی تو ہے ہی لیکن برائی کا بادلہ بھی بھلائی ہی کو قرار دو۔ جو شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تم اس کے ساتھ بھلائی کر کے گویا اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو کیونکہ انتقاما بھی ظلم اور برائی کی راہ کو ترک کرنا احسان ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اگر لوگ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو سے مراد یہ ہو کہ اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تو تم اس کے مقابلہ میں حد سے تجاوز نہ کرو بلیکیہ اعتدال کی حد میں رہتے ہوئے اس سے بدلہ لو، جیسا کہ مشروع ہے۔ یا برائی کرنے والوں سے بدلہ لینے ہی پر اپنے آپ کو پابند نہ بناؤ بلکہ ان کے ساتھ عفودرگزر کا معاملہ بھی کرو۔ اور یا برائی کا بادلہ بھلائی کو قرار دے کہ برائی کرنے والے کے ساتھ احسان کرو۔ واضح رہے کہ ان تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت وہ ہے جس کو عام مسلمانوں کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے دوسری صورت کا تعلق ان مسلمانوں سے ہے جن کا شمار خواص میں ہوتا ہے اور تیسری صورت جو سب سے اعلی درجہ ہے، ان مسلمانوں سے متعلق ہے جن کو اخص الخواص کہا جاتا ہے۔ حضرت شیخ علی متقی (رح) نے ایک رسالہ میں بڑی عارفانہ بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت کی محبت کو پہچاننے کا معیار یہ چار چیزیں ہیں ١۔ جس شخص پر دنیا کی محبت غالب ہوتی ہے اوہ لوگوں کو بلاوجہ ایذاء پہنچاتا اور بغیر کسی پیش آمدہ معاملہ کے ان کے ساتھ برائی کرتا ہے۔ ٢۔ جو شخص دنیا کی محبت میں اس درجہ مبتلا نہیں ہوتا وہ کسی کو ایذاء پہنچانے میں ابتداء نہیں کرتا، البتہ جب کوئی شخص اس کو ایذاء پہنچاتا ہے تو وہ حد سے تجاوز کئے بغیر اس کو اسی قدر ایذاء پہنچتا ہے جس کو شریعت نے بدلہ کے طور جائز رکھا ہے۔ ٣۔ جس کی آخرت کی محبت قوی ہوتی ہے اور دنیا کی محبت ضعف تو وہ اس شخص کے ساتھ عفو درگزر کرتا ہے جو اس پر ظلم کرتا ہے۔ ٤۔ جس شخص کی آخرت کی محبت زیادہ قوی ہوتی ہے وہ ظلم کے مقابلہ پر احسان کرتا ہے۔ اور یہ وہ درجہ ہے جو صدیقین اور مقربین کو حاصل ہوتا ہے۔
Top