مشکوٰۃ المصابیح - امر بالمعروف کا بیان - حدیث نمبر 5015
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم يكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه . رواه البخاري
قیامت کے دن مظلوم کو ظلم سے کس طرح بدلہ ملے گا
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کا کوئی حق رکھتا ہو اور وہ حق خواہ (غیب و برائی کرنے اور روحانی و جسمانی ایذاء رسانی وغیرہ کی صورت میں) آبروریزی کا ہو یا کسی اور چیز سے متعلق ہو (جیسے کوئی مالی مطالبہ یا ناحق خون وغیرہ) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس حق کو آج ہی کے دن (یعنی اسی دنیا میں) معاف کرا لے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے یعنی قیامت کا دن کہ جس میں وہ نہ تو درہم رکھتا ہوگا نہ دینار (کہ جو اس حق کے بدلہ کے طور پردے سکے) اگر (اس نے اپنے حق کو معاف کردیا تو بہتر ہے ورنہ پھر) ظالم کے اعمال نامہ میں جو کچھ نیکیاں ہوں گی تو ان میں سے اس کے ظلم کے برابر یا واجب حق کے بقدر نیکیاں لے لی جائیں گی (اور مظلوم یا حق دار کو دے دی جائیں گی) اور اگر وہ کچھ بھی نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں اس مظلوم یا حق دار کے گناہوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) گناہ لے کر ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ (بخاری)

تشریح
آخرت میں ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ اس طرح لیا جائے گا کہ اگر اس کے اعمال نامہ میں کچھ نیکیاں ہوں گی تو وہ مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر وہ اپنے اعمال نامہ میں نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں مظلوم کے وہ گناہ جو اس نے دنیا میں کئے ہوں گے اس ظالم پر لاد دیئے جائیں گے چناچہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے ہی گا مزید برآں مظلوم کے گناہوں کے عذاب میں بھی مبتلا ہوگا اور مظلوم کو اس عذاب سے نجات دے دی جائے گی جس کا وہ ان گناہوں کی وجہ سے مستوجب ہوتا۔ حدیث کے یہ الفاظ کہ وہ نہ درہم رکھتا ہوگا نہ دینار اس طرف اشارہ کرتے ہیں جس شخص نے کسی پر کوئی ظلم و زیادتی حق تلفی کی ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں مظلوم یا حق دار سے اس ظلم یا حق کو ضرور معاف کرا لے خواہ اس معافی کے عوض روپیہ پیسہ خرچ کرنا پڑے اور اس دنیا ہی میں معافی تلافی کا ہوجانا اس سے کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہے کہ عدم معافی کی صورت میں اس کی نیکیاں لے لے یا اپنے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے۔ اس کے ظلم یا واجب حق کے بقدر کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ان نیکیوں اور گناہوں کی مقدار کا تعین علم الٰہی کے سپرد ہے، یعنی وہی بہتر جانتا ہے کہ ان نیکیوں اور گناہوں کا لینا دینا کس طرح اور کس اعتبار سے ہوگا) تاہم ابن ملک (رح) نے لکھا ہے کہ جن نیکیوں اور برائیوں کا لینا دینا ہوگا، ہوسکتا ہے کہ وہ اس موقع پر نفس اعمال ہوں گے جن کو جواہر کی مانند مجسم کر کے پیش کیا جائے گا) اور یہ احتمال بھی ہے کہ ایک دوسرے کو وہ نعمتیں یا عذاب ملیں جو ان نیکیوں یا برائیوں کی جزا و سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔
Top