مشکوٰۃ المصابیح - ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5274
عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مسلمانوں کے مختلف زمانوں کے بارے میں ایک پیش گوئی
حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت کا وجود اور اس کا نور اس وقت تک باقی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی (یعنی ایسے لوگوں کی بادشاہت کا زمانہ آئے جو آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹیں گے جس طرح کتے کاٹتے ہیں اور وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر یعنی عدل و انصاف کو پورے طور پر جاری کرنے والی خلافت قائم ہوگی (اور اس خلافت سے مراد حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ ہے) ات نافرما کر آپ خاموش ہوگئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے کاتب تھے، نیز ان سے حضرت قتادہ ؓ وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور انہوں نے نبوت کے طریقہ پر حکومت قائم کی تو میں نے اس حدیث کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔ وہ یعنی عمر بن عبدالعزیز اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اس

تشریح
نے ان کو بہت مسرور کیا (یعنی اس بات کی امید و آرزو نے ان کو بھی بہت خوش کیا کہ حدیث میں جس آخری خلافت کا ذکر کیا گیا ہے شاید اس کا اطلاق میرے زمانہ خلافت ہی پر ہو) اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
Top