مشکوٰۃ المصابیح - ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5272
وعن أبي عبيدة ومعاذ بن جبل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن هذا الأمر بدأ نبوة ورحمة ثم يكون خلافة ورحمة ثم ملكا عضوضا ثم كان جبرية وعتوا وفسادا في الأرض يستحلون الحرير والفروج والخمور يرزقون على ذلك وينصرون حتى يلقوا الله رواه البيهقي في شعب الإيمان . ( حسن )
مختلف زبانوں اور مختلف ادوار کے بارے میں پیش گوئی
حضرت عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل ؓ جو دونوں اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا یہ امر (یعنی دین اسلام) نبوت و رحمت کے ساتھ ظاہر ہوا (یعنی دین اسلام سب سے پہلے جس زمانہ میں ظاہر ہوا وہ زمانہ نزول وحی اور رحمت و نورانیت کا زمانہ ہے) پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گے وہ خلاف و رحمت کا زمانہ ہوگا، پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گا وہ کاٹ کھانے والی بادشاہت کا زمانہ ہوگا اور پھر اس دین کا جو زمانہ آئے گا وہ ظلم وجور، قہر وتکبر اور زمین پر فتنہ و فساد کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت لوگ ریشمی کپڑوں کو جائز جان کر استعمال کریں گے، عورتوں کی شرمگاہوں کو اور شراب کی تمام انواع و اقسام کو حلال قرار دیں گے۔ لیکن ان چیزوں کے باوجود ان کو رزق دیا جائے گا اور کفار اور ان کے مخالفین کے مقابلہ پر ان کی مدد کی جائے گی یہاں تک وہ روز جزا اللہ تعالیٰ سے جا ملیں گے (یعنی لوگ اگرچہ اتنی سخت بد عملیوں اور اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوں گے اور اس اعتبار سے وہ عذاب الٰہی کے مستوجب اور ہلاکت و تباہی کے مستحق ہوں گے۔ مگر حق تعالیٰ کی اس رحمت کے سبب کہ جو امت مرحومہ کے لئے مخصوص ہے ان کو یہاں عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اور اس میں شاید حق تعالیٰ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو مثلا یہ کہ ان سے مخلوق الٰہی کے نظم ونسق اور انتظام مملکت کا وہ کام لیا جانا مقصود ہوگا جس کی اہلیت و صلاحیت وہی رکھیں گے یا یہ کہ اگر وہ لوگ خود فاسق و بدکار ہوں گے لیکن ان کے ہاتھوں دین کی اصلاح ودرستی کا کوئی انجام پانا مقدر ہوگا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
لفظ بدا الف کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں ظاہر ہوا اور بعض نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ ہے جس کے معنی شروع ہونے کے ہیں اس صورت میں گویا ترجمہ یہ ہوگا کہ یہ امر یعنی دین اسلام کا ابتدائی زمانہ وحی سے شروع ہوا اور ذات رسالت ﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک باقی رہا۔ اس ارشاد گرامی اسلامی تاریخ کے ان ادوار اور زمانوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے جس سے مسلمانوں کا کارواں گزرا یا گزرے گا۔ پہلا زمانہ تو وہ ہوگا جس میں دین اسلام کی ابتداء اور اس کا ظہور ہوا ہے اور جو نزول وحی کے وقت سے شروع ہو کر آنحضرت ﷺ کے آخر زندگی تک باقی رہا یہ زمانہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں سراسر رحمت ونورانیت اور خیر سعادت کا زمانہ تھا ذات رسالت ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے دین میں کسی رخنہ اندازی، احکام شریعت میں کسی ابہام وتشکیک، مسلمانوں کی نظریاتی وعملی زندگی میں کسی گمراہی و ضلالت اور عام حالات میں کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہونے کا کوئی خوف تک نہ تھا۔ حضور ﷺ کے بعد جو زمانہ آیا وہ خلافت کا زمانہ تھا، حضور ﷺ کی صحبت ورفاقت سے فیض اٹھائے ہوئے اور ذات رسالت پناہ کے تربیت یافتہ افراد میں سے سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ باعظمت اور ایمان وعمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ کامل انسان حضور ﷺ کے نائب و خلیفہ بنے، مسلمانوں کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں آئی اور وہ دین وملت کے معاملات کے والیو نگہبان بنے ان پاک نفس حضرات نے یکے بعد دیگر مسند خلافت پر متمکن رہ کر جتنے دنوں تک مملکت وملت کا نظم ونسق چلایا وہ پورا زمانہ گویا پھر ایک مرتبہ رحمت و نورانیت کا زمانہ رہا کہ خلفاء راشدین اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طور پر مسلمانوں پر سایہ فگن اور خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے رہے اور ان کے زمانہ میں نیکیوں اور بھلائیوں کا دور دورہ رہا مسلمان اخلاص و ایثار اور عمل کردار کی پختگی کا نمونہ بنے رہے اور ان کے طفیل میں یہ زمین عام طور پر امن و سکون اور اطمینان و عافیت کا گہوارہ رہی۔ وہ زمانہ کہ جس کو خلافت و رحمت کا زمانہ کہا گیا ہے تیس سال کے شب و روز پر مشتمل تھا ان تیس سالوں میں ساڑھے انتیس سال تو چاروں خلفاء راشدین کے مجموع زمانہ خلافت کے ہیں اور باقی چھ ماہ کا عرصہ وہ ہے جس میں حضرت حسن ؓ مسند خلافت پر متمکن رہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضور ﷺ کے وصال کے بعد ربیع الاول 11 ھ میں خلیفہ رسول مقرر ہوئے اور جمادی الثانی 13 ھ میں وفات پائی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے مرض الموت میں صاحب الرائے مسلمانوں کے مشورہ سے حضرت عمر فاروق ؓ کو اپنا جانشین نامزد فرما دیا تھا، چناچہ حضرت عمر ؓ نے جمادی الثانی 13 ھ میں خلافت کا منصب سنبھالا اور آخر ذی الحجہ 23 ھ تک اس منصب پر فائز رہے، 27 ذی الحجہ کو ایک نصرانی غلام ابولؤلؤ (اصل نام فیروز) نے آپ کو نماز فجر کی امامت کی حالت میں خنجر سے حملہ کر کے سخت زخمی کردیا تھا جس کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے اور یکم محرم الحرام 24 ھ کو فوت ہو کر مدفون ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے آخری دنوں میں پانچ جلیل القدر اور ممتاز صحابہ حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی ؓ کو نامزد فرما دیا تھا کہ یہ حضرات آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنالیں، چناچہ ان حضرات نے کافی غور وخوض اور باہمی مشورہ کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ کو اپنا امیر اور تیسرا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضرت عثمان ؓ کی خلافت محرم 24 ھ سے شروع ہوئی اور ذی الحجہ 30 ھ تک رہی جب کہ اس ماہ کی 18 تاریخ کو خلافت کے باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نے آپ کو مکان میں محصور کر کے بڑی بےدردی کے ساتھ شہید کردیا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد 25 ذی الحجہ 35 ھ کو حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں عام بیعت ہوئی اور اس طرح وہ چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے اور رمضان 40 ھ کو ان کی خلافت کا دور ختم ہوا جب کہ عبدالرحمن بن ملجم کے زخمی کردینے کی وجہ سے سے ان کی وفات ہوئی۔ حضرت علی ؓ کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی خلافت قائم ہوئی، لیکن حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے آویزش جو سلسلہ حضرت علی ؓ کے زمانہ میں شروع ہوا تھا وہ ان کی وفات کے بعد اور زیادہ بڑھ گیا اور جب سیادت وامارت کے مسئلہ پر مسلمانوں میں افتراق و انتشار بڑھنے لگا اور مخالف فریقوں کے درمیان کشت وخون کا خطرہ زیادہ شنگین ہوگیا تو حضرت امام حسن ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے حق میں خلاف سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا چناچہ انہوں نے ربیع الاول 41 ھ تک خلافت کی۔ 41 ھ تک کا تیس سالہ دور وہ زمانہ ہے جس کو اس حدیث میں خلافت و رحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے اور اس زمانہ میں ان خلفاء راشدین نے آنحضرت ﷺ کے نائب و خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اخلاص ودیانت اور عدل و انصاف کے ساتھ اور حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر دین اسلام کی خدمات انجام دیں، مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت وسیادت کی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ نبھایا اور اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس خلافت کی اس حدیث میں فضیلت بیان کی گئی ہے اور جو واقعتا ذات رسالت ﷺ کی نیاب تھی اس میں امیر معاویہ ؓ کا کوئی حصہ نہیں ہے کہ ان کا دور حکمرانی اس زمانہ سے الگ ہے۔ جس کو خلافت ورحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے۔ عض کے معنی کاٹنے کے ہیں اور عضوض (عین کے زبر کے ساتھ) اسی لفظ سے نکلا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے اور ایک روایت میں ملوکا عضوضا (عین کے پیش کے ساتھ) منقول ہے جو عض (عین کے زیر کے ساتھ) کی جمع ہے اور جس کے معنی خبیث، شریر اور بدخلق کے ہیں مطلب یہ ہے کہ خلافت و رحمت کے زمانہ کے بعد جو دور آئے گا وہ ملوکیت بادشاہت کا دور ہوگا اور ایسے ایسے لوگ ملک کے بادشاہ حکمران اور مسلمانوں کے سردار وحاکم بن بیٹھیں گے جن کے دلوں میں نہ اللہ کا خوف اور مواخذہ آخرت کا ڈر ہوگا اور نہ مخلوق اللہ کے تئیں ہمدردی ومروت اور عدل و انصاف کا احساس ہوگا اس لئے وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لوگوں پر ظلم وجبر کریں گے ان کو ناحق سزاؤں اور عقوبتوں میں مبتلا کریں گے اور ان کو طرح طرح سے ستائیں گے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ بات غالب و اکثریت کے اعتبار سے کہی گئی ہے یعنی اکثر بادشاہ حکمران ایسے ہوں گے اور چونکہ شاذ و نادر پر حکم نہیں لگایا جاتا کہ النادر کالمعدوم اس لئے یہ اشکال پیدا نہیں ہوسکتا کہ حدیث میں خلافت راشدہ کے بعد کے حکمرانوں اور بادشاہوں کے زمانہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے کیا اس کا اطلاق ان حکمرانوں کے رانوں پر بھی ہوتا ہے۔ جو عدل و انصاف، مذہب وملت کی خدمت گزاری اور اللہ ترسی کے اوصاف سے پوری طرح آراستہ تھے؟ مثال کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکمرانی ہے، انہوں نے جس عدل وانصا کے ساتھ حکمرانی کی اور ان کا دور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں جس طرح خیر و بھلائی کا باعث بنا اس کی بنیاد پر عمر ثانی کہا گیا ہے حاصل یہ کہ خلاف راشدہ کے بعد جن لوگوں نے مسلمانوں پر حکمرانی کی اور جو لوگ بادشاہ بنے ان میں سے اکثر ایسے تھے جن کا دور حکمرانی مذہب وملت کے حق میں مفید ثابت ہوا اور اپنے عوام کے لئے خیر و برکت اور راحت و اطمینان کا باعث بنے وہ استثنائی حکم رکھتے ہیں۔ ظلم وجور، قہر وتکبر اور زمین پر فتنہ و فساد کا زمانہ ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اور زیادہ سخت ہوگا، نااہل لوگ تخت حکومت پر بیٹھیں گے، ظلم اور زیادتی اور انتشار وبد امنی کا دور دورہ ہوگا، عالم لوگوں کی جان و مال اور عزت آبرو غیر محفوظ ہوگی ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوگا اور انسانیت کو تباہ کرنے والی ہر طرح کی برائیاں روئے زمین پر پھیل جائیں گی۔ چناچہ جیسا کہ ہم اپنے زمانہ میں دیکھ رہے ہیں یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ حکومت و اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے جو آئیں جہانبانی سے ناواقف ہیں، جنہوں نے ظلم وجور کو اپنا شعار بنا رکھا ہے اور مسلم ممالک جہاں مذہب وملت کے اصولوں کی فرمانبرداری ہونی چاہیے وہاں طاغوتی طاقتیں بر سرحکومت ہیں ظالم و جابر لوگوں نے زور زبردستی اور مکر و فریب کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کرلیا ہے وہ نہ قیادت وسیادت کے اصول و شرائط کو پورا کرتے ہیں، نہ اپنے عوام کی دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری سے انہیں کوئی تعلق ہے وہ اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے فتنہ و فساد کے بیج بوتے ہیں تباہ کن سازشیں کرتے ہیں عوام پر نت نئے ظلم ڈھاتے ہیں جو بندگان خاص انہیں راہ راست دکھانا چاہتے ہیں ان کو طرح طرح کی صعوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، کلیدی عہدوں اور مناسب پر اہل و لائق افراد کی بجائے موقع پرست، خود غرض اور نااہل لوگوں کو فائز کرتے ہیں، علماء وصلحاء اور اکابرین دین، جو ہر طرح کی عزت احترام کے مستحق ہوتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی طرف کوئی توجہ والتفات نہیں کی جاتی بلکہ مختلف ذرائع اور اقدامات کے ذریعہ ان کی ہتک کی جاتی ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی پاداش میں ان کو قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ تقریبا تمام ہی مسلم حکمرانوں نے دین کے دشمنوں کے خلاف تو جہاد کے فریضہ کو ترک کردیا، البتہ اپنی حکمرانی کی خاطر اور ملک گیری کی ہوس میں خود مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوگئے اور اپنی تلواروں کو ان کے خون سے رنگین کیا۔ اور اسی وجہ سے بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو شخص ان حکمرانوں اور بادشاہوں کو عادل کہے گا وہ کافر ہوجائے گا۔ غرضیکہ ان حکمرانوں اور بادشاہ کی وجہ سے روئے زمین پر فتنہ و فساد روز افزوں ہوتا گیا خود غرضی، موقع پرستی، بدانتظامی اور عام بدامنی و انتشار کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، یہاں تک کہ تاریخ ایسے حکمرانوں کے سیاہ کارناموں سے شرمسار ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے ان شہرو وں کو تاراج کرنے اور وہاں کے لوگوں کا قتل عام کا باعث بنے، جہاں بڑے بڑے اولیاء، صلحاء اور مشایخ تھے، جہاں کمزور اور ضعیف لوگ بچے اور عورتیں تھیں اور جن کو قتل کرانے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں تھی، مزید ستم یہ کہ اس شہر کے لوگ ملت حنیفہ سے تعلق رکھتے تھے اور اہل سنت والجماعت میں شامل تھے اور ان کا قتل عام کرنے والے مدعی سلطنت اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ ہم دین و شریعت کے حامی و مددگار ہیں اور اہل علم وبزرگان دین کی تعظیم کرتے ہیں۔ علماء نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر مسلمان دشمنان دین کے کسی ایسے قلعہ کو فتح کریں جس میں ہزاروں اہل حرب اور دشمنان دین پائے جائیں لیکن ان ہزاروں میں کوئی ایک مجہول الحال ذمی بھی موجود ہو تو محض اس ذمی کی وجہ سے مفتوح قلعہ میں قتل عام کرنا ہرگز درست نہیں ہوگا۔ مگر وہ حکمران اور بادشاہ حشر کے دن آخر کیا جواب دیں گے جنہوں نے محض اپنے اقتدار اور اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے مسلمانوں تک کا قتل عام کرایا ہے اور ان کے شہروں وآبادیوں کو چشم و زون میں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے نالائق ونااہل مسلم حکمرانوں ہی کی وجہ سے ایسے ایسے فتنہ و فساد رونما ہوئے اسلامی سلطنتوں میں اس قدر تباہیاں آئیں اور اتنا زیادہ کشت و خون ہوا کہ روئے زمین پناہ مانگنے لگی، یہاں تک کہ حرمین شریفین بھی ان فتنہ و فساد سے محفوظ نہ رہ سکے اور ان مقدس شہروں میں اتنے تباہ کن اور بھیانک واقعات رونما ہوئے کہ قلم کو مجال بیان نہیں اور ان کی تفصیل کو ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے دین کا بہترین کا رساز اور اپنے نبی ﷺ اور اس کی امت کا حامی و مددگار ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آنے والا ہر سال، بلکہ ہر دن اور بلکہ ہر لمحہ پہلے کی بہ نسبت بد سے بدتر ہی گزر رہا ہے۔
Top