مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 5240
وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يبعث كل عبد على ما مات عليه . رواه مسلم .
اصل اعتبار خاتمہ کا ہے
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر بندہ کو اسی حال پر اٹھایا جائے گا۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس حالت و حیثیت میں اس دنیا سے رخصت ہوگا اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھے گا اور اس کا اخروی انجام اسی کے مطابق ہوگا۔ اگر ایمان کی حالت میں مرا ہے تو ایمان ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو کفر ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر طاعت و عبادت کی حالت میں مرا ہے تو طاعت و عبادت گزار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اگر گناہ و معصیت کی حالت میں مرے گا تو نافرمان و گنہگار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اسی طرح اگر اللہ کے ذکر کی حالت میں مرے گا تو ذاکر بندے کی حیثیت میں اٹھے گا اور اگر ذکر الٰہی سے غفلت و لاپرواہی کی حالت میں مرے گا تو غافل و لاپرواہ بندے کے طور پر اٹھے گا۔ غرض یہ کہ قیامت کے دن اٹھنے اور آخرت میں فلاح یاب ہونے یا نامراد قرار دیئے جانے کا مدار خاتمہ پر ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا آخر کیسا گزرے اور اس کا خاتمہ کس حالت میں ہو۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔ حکم مستوری ومستی ہمہ بر خاتمہ است کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گذرد تاہم بعض عارفین نے کہا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے تئیں حضوری واستغراق کا ملکہ حاصل کرلیتا ہے اور اس کے دل میں ذکر اللہ کا جو ہر جگہ پا لیتا ہے تو اگر موت کے وقت سختی وشدت کے سبب یا بیماری کے غلبہ اور بےتابی و اضطراب کی وجہ سے اس کے اندر استحضار واستغراق کی کیفیت میں کوئی کمی و کوتاہی راہ پا جائے تو یہ چیز اس کے حق میں نقصان دہ نہیں ہوگی بلکہ جسم سے روح کی جدائی کے بعد اس کی وہ کیفیت وحالت لوٹ آئے گی۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ذکر الٰہی اور تعلق مع اللہ میں وہ ملکہ و کمال حاصل کیا جائے جو بہر صورت سرمایہ نجات ہے۔
Top