مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5232
وعن المهاجر بن حبيب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الله تعالى إني لست كل كلام الحكيم أتقبل ولكني أتقبل همه وهواه فإن كان همه وهواه في طاعتي جعلت صمته حمدا لي ووقارا وإن لم يتكلم رواه الدارمي .
حسن نیت کی اہمیت
حضرت مہاجر بن حبیب ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں عقلمند ودانشور کی ہر بات کو قبول نہیں کرتا (یعنی میرا دستور یہ نہیں ہے کہ عالم وفاضل اور علمند و دانا شخص جو بات بھی کہے اس کو قبول کرلوں) بلکہ میں اس کے قصد و ارادہ کو اور اس کی محبت ونیت کو قبول کرتا ہوں (یعنی یہ دیکھتا ہوں کہ اس نے جو بات کہی ہے وہ کس قصد و ارادہ اور کس نیت کے ساتھ کہی ہے) پس اگر اس کی نیت و محبت میری طاعت و فرمانبرداری کے تئیں ہوتی ہے تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنی حمد و ثنا اور اس کے حلم و وقار کے مرادف قرار دیتا ہوں اگرچہ وہ کوئی بات نہ کہے۔ (دارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک محض گفتار کے غازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کہنے والا دانش و حکمت سے قطع نظر اپنی نیت میں کتنا مخلص ہے۔ اگر وہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی نیت اور اپنے دل میں اللہ کے احکام کی محبت و عظمت رکھتا ہے تو اس کی خاموشی بھی علم و وقار کا مایہ افتخار اور اللہ کے نزدیک مستحسن و محمود قرار پاتی ہے کہ اگر وہ زبان سے کچھ نہ کہے تو بھی وہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کی حمد و ثنا میں رطب اللسان ہے۔ اور اگر اس کی نیت اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی نہ ہو اور اس کے دل میں احکام الٰہی کی عظمت و محبت کا فقدان ہو تو اس کی ہر بات لغو اور ناقابل اعتناء قرار پاتی ہے اگرچہ اس کے الفاظ ومعنی علم و حکمت سے کتنے ہی پر کیوں نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا کہ وہ ریا کاری میں مبتلا ہے اور جو بھی بات کہہ رہا ہے، اس کا مقصد لوگوں کو دکھانا سنانا اور اس کے ذریعہ شہرت وناموری حاصل کرنا ہے۔
Top