مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5226
وعنه أنه بكى فقيل له ما يبكيك ؟ قال شيء سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فذكرته فأبكاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أتخوف على أمتي الشرك والشهوة الخفية قال قلت يا رسول الله أتشرك أمتك من بعدك ؟ قال نعم أما إنهم لا يعبدون شمسا ولا قمرا ولا حجرا ولا وثنا ولكن يراؤون بأعمالهم . والشهوة الخفية أن يصبح أحدهم صائما فتعرض له شهوة من شهواته فيترك صومه . رواه البيهقي في شعب الإيمان . ( حسن )
دکھلاوے کا نماز روزہ شرک ہے
حضرت شداد بن اوس ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک موقع پر وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ رونے کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بات نے رلایا ہے کہ جو میں نے رسول ﷺ سے سنی تھی۔ اس وقت مجھے وہ بات یاد آگئی تو میں رونے پر مجبور ہوگیا اور وہ بات یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ میں اپنی امت پر شرک (یعنی شرک خفی) اور چھپی خواہشات سے خوف کھاتا ہوں۔ حضرت شداد ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کی امت آپ ﷺ کے بعد شرک میں مبتلا ہوجائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں! یاد رکھو، میری امت کے لوگ سورج کو نہیں پوجیں گے، چاند کو نہیں پوجیں گے، پتھر کو نہیں پوجیں گے اور کھلم کھلا بت پرستی نہیں کریں گے (یعنی وہ شرک جلی میں تو نہیں مبتلا ہوں گے) لیکن لوگوں کو دکھلانے کے لئے نیک کام کریں گے۔ (اور یہ شرک خفی ہے جس میں وہ مبتلا ہوں گے (اور چھپی خواہش یہ کہ تم میں سے کوئی شخص روزہ کی حالت میں صبح کرے اور پھر اس پر نفسانی خواہشات میں سے کسی خواہش کا غلبہ ہوجائے جیسے کھانے کی خواہش غالب ہوجائے یا جنسی خواہش جاگ اٹھے اور وہ اس خواہش کے غلبہ کی وجہ سے کھانا کھا کر یا ہم بستری کر کے اپنا روزہ توڑ ڈالے جب کہ شرعی طور پر قابل اعتبار کسی ضرورت وحالت کے پیش آنے کے بغیر روزہ توڑنا حرام ہے۔ (احمد، بیہقی)

تشریح
مذکورہ خواہش کو چھپی خواہش اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ روزہ کی نیت کے وقت گویا اس کے باطن میں پوشیدہ تھی، یعنی جب اس شخص نے روزہ کی نیت کی تھی اسی وقت اس نے اپنے نفس میں یہ خواہش چھپا رکھی تھی کہ اگر کوئی نفسانی تقاضا آیا تو روزہ توڑ دوں گا۔ واضح رہے کہ طیبی نے تو خواہش سے مراد کھانے وغیرہ کو قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ چھپی ہوئی خواہش سے مراد نفسانی خواہشات میں خاص طور پر وہ نادرالوجود خواہش ہے۔ جو ہر وقت پیدا نہ ہوتی ہو بلکہ کسی خاص موقع پر اور کسی خاص وقت پیدا ہوجاتی ہو اور جب وہ خواہش سر ابھارتی ہو تو اس وقت اس کو پورا کرنے کا داعیہ طبعی طور پر اس طرح غالب آجاتا ہو کہ اس کی راہ میں کسی شرعی حکم کی مخالفت کا خوف بھی رکاوٹ نہ بناتا ہو، جیسا کہ روزہ کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تبطولا اعمالکم۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لئے روزہ توڑنے والا یہ لحاظ نہ رکھے کہ میرے اس فعل کی وجہ سے اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ از قسم عبادت وطاعت جو کام شروع کیا جاتا ہے وہ لازم ہوجاتا ہے اور اس کا پورا کرنا شرعا واجب ہوتا ہے۔
Top