مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5221
عن أبي تميمة قال شهدت صفوان وأصحابه وجندب يوصيهم فقالوا هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ؟ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سمع إن أول ما ينتن من الانسان بطنه فمن استطاع أن لا يأكل إلا طيبا فليفعل ومن استطاع أن لا يحول بينه وبين الجنة ملء كف من دم اهراقه فليفعل . رواه البخاري .
سمعہ کی مذمت
حضرت ابوتمیمہ تابعی (رح) کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کی مجلس میں اس وقت حاضر ہوا کہ جب مشہور اور جلیل القدر صحابی حضرت جندب ؓ بن عبداللہ بن سفیان بجلی حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کو ریاضت و مجاہدہ کی راہ مستقیم اختیار کرنے یا کثرت کے ساتھ عبادت کرنے یا طاعت میں میانہ روی اختیار کرنے اور یا سمعہ و ریا اور حصول شہرت کی طلب و خواہش سے احتراز و اجتناب کرنے کی نصیحت فرما رہے تھے۔ پھر حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے رسول کریم ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ (یعنی اگر آپ نے حضور ﷺ کی کوئی حدیث سنی ہے تو اس کو ہمارے سام بےبیان فرمائیے اور ہمیں ارشاد نبوی ﷺ سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیجئے۔ حضرت جندب ؓ نے یہ حدیث بیان کی میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ۔ جو شخص سنائے گا (یعنی لوگوں کے سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے جو کوئی نیک کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رسوا کرے گا۔ اور جو شخص مشقت میں ڈالے گا (یعنی اپنی ہمت و طاقت سے بڑھ کر کوئی کام کرنے کی صورت میں اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرے گا یا کسی دوسرے شخص مثلا اپنے خادم یا نوکر چاکر وغیرہ کو کسی ایسے کام پر مامور کر کے، کہ جو اس کی ہمت و طاقت سے باہر ہو، ناقابل برداشت محنت ومشقت کی اذیت میں مبتلا کرے گا)۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مشقت میں ڈالے گا۔ یہ سن کر انہوں نے (یعنی صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے یا حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے حضرت جندب سے کہا) کہ ہمیں کچھ اور نصیحت فرمائیے تو (حضور ﷺ نے یا حضرت جندب نے) فرمایا۔ انسان کی جو چیز سب سے پہلے گندی اور خراب ہوتی ہے وہ اس کا پیٹ ہے (یعنی جو چیز انسان کو سب سے پہلے زیادہ برائی میں مبتلا کرتی ہے سب سے پہلے دوزخ کی آگ کا مستوجب بناتی ہے اور آخرت میں سب سے پہلے دوزخ میں جانے اور عذاب بھگتنے کا باعث بنے گی وہ اس کا پیت ہے پس جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس چیز کے علاوہ اور کچھ اپنے پیٹ میں نہ پہچنائے جو حلال و جائز ہے تو بیشک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے اور جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس کے اور جنت کے درمیان ناحق بہایا جانے والا ایک چلو خون حائل ہو تو بیشک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ کسی کا ایک چلو بھی ناحق خون بہانے سے احتراز کرے۔ (بخاری)

تشریح
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ ناحق خونریزی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا زیادہ ہونا تو کجا اگر ایک چلو کے بقدر بھی ہو تو جنت میں جانے سے روکنے والی ہے پس یہ بات عقل دانائی سے بعید تر ہے، یکہ ایسے برے اور قابل نفرین فعل کا ارتکاب کیا جائے جو انسانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ جنت میں داخل ہونے جیسی عظیم و اہم سعادت سے محروم رکھنے والا بھی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صفوان سے مراد صفوان بن سلیم زہری ہیں جو مدینہ کے ایک نہایت جلیل القدر تابعی تھے اور جن کی شخصیت، علم و معرفت، کردار وعمل، زہد وتقوی اور عبادت و ریاضت کا ایک مثالی نمونہ تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس برس تک اپنا پہلو زمین سے نہیں لگایا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہوگیا تھا، ان کے حالات میں یہ لکھا ہے کہ وہ امراء و سلاطین کا کوئی بھی انعام و اکرام قبول نہیں کرتے تھے۔ غرضیکہ ان کے بہت زیادہ فضائل ومناقب بیان کئے جاتے ہیں۔
Top