مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5220
وعن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال بحسب امريء من الشر أن يشار إليه بالأصابع في دين أو دنيا إلا من عصمه الله . رواه البيهقي في شعب الإيمان .
شہرت یافتہ زندگی پر خطر ہے
حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے۔ الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے۔ (بیہقی)

تشریح
دنیاوی اعتبار سے مشہور و معروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہوجانے اور ایمانی امن و سلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرہ سے خالی نہیں، کیونکہ اس صورت میں اس کے ریاء کار ہونے کا گمان کیا جاسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہوجائے یہ تمنا کرنے لگے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت و احترام کا مرکز بنالیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہوسکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں۔ چناچہ ایسے بندگان اللہ کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت وناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہوجانے والی برائیوں سے محفوظ ومامون رہے، ہاں وہ بندگان اللہ خاص کر جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت وناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر و باطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ مشائخ کرام کہتے ہیں کہ آخر مایخرج من رأس الصدیقین حب الجاہ۔ لہٰذا انسان کی بھلائی و بہتری اسی میں ہے اور ایمان و کردار کی سلامتی و حفاظت اسی صورت میں زیادہ ممکن ہے جب کہ وہ گوشہ نشینی وگمنامی اور یکسوئی کی زندگی کو شہرت کی زندگی پر ترجیح دے۔ الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے حدیث کے اس جملہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت وناموری کا نقصان دہ اور برائی کا باعث ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ و اقتدار اور شہرت وناموری کی طلب و خواہش کا سکہ رواں ہو، ورنہ تو بندگان اللہ اس طلب و خواہش سے محفوظ ومامون اور اپنے ظاہر و باطن کے اعتبار سے مخلص پاکباز ہوتے ہیں وہ اس بات سے مستثنی ہیں، کیونکہ عوامی مقبولیت وشہرت اور جاہ و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ اللہ کی وہ نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل و مستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ و برائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگان خاص کی نسبت سے یہ فرمایا ہے کہ آیت (واجعلنا للمتقین اماما)۔ منقول ہے کہ حضرت حسن بصری (رح) کی بےپناہ عوامی شہرت ومقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور و نمایاں ہوگئے ہیں۔ جب کہ آنحضرت ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے کہ بحسب امری من الشر الخ۔ حضرت حسن بصری نے جواب دیا کہ ارشاد گرامی ﷺ کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو (یعنی جو شخص دنیا میں مالداری و ثروت رکھتا ہے اور اس مالداری و ثروت کی وجہ سے مشہور معروف ہو، لیکن فسق وفجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع و پیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ جو حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے واضح ہوتا ہے۔
Top