مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5219
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لكل شيء شرة ولكل شرة فترة فإن صاحبها سدد وقارب فارجوه وإن أشير إليه بالأصابع فلا تعدوه . رواه الترمذي .
میانہ روی کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہر چیز کے لئے حرص و زیادتی ہے اور پھر حرض و زیادتی کے لئے سستی وسب کی ہے۔ پس اگر عمل کرنے والے نے میانہ روی سے کام لیا اور اعتدال کے قریب رہا اور اس نے افراط وتفریط سے اجتناب کیا تو اس کے بارے میں امید رکھو کہ وہ اپنی مراد پالے گا اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا گیا (یعنی اس نے طاعت و عبادت اور اوراد وظائف کی مشغولیت اور دنیاوی نعمتوں ولذتوں میں اجتناب میں اس لئے مبالغہ و کثرت کو اختیار کیا کہ لوگوں میں عابد و زاہد مشہور ہو اور پھر وہ لوگوں میں عابد و زاہد مشہور بھی ہوگیا) تو تم اس کو عابد و زاہد اور صالح شمار نہ کرو کیونکہ درحقیقت وہ ریاء کاروں میں سے ہے۔ (ترمذی)

تشریح
شرۃ کے معنی ہیں نشاط رغبت اور حرص میں مبتلا ہونا یہاں حدیث میں اس لفظ سے مراد کسی چیز میں افراط اور کسی کام میں حد سے زیادہ انہماک ہے اور فترۃ کے معنی ہیں سستی و کمزوری اور کمی۔ مطلب یہ ہے کہ جو عابد ابتداء طاعت و عبادت اوراد وظائف وغیرہ میں حد سے زیادہ مشغول ومنہمک رہتا ہے وہ بعد میں سست و کمزور ہوجاتا ہے اور اس کی طاعت و عبادت وغیرہ کم ہوجاتی ہے۔ اس بات کو اصولی انداز میں زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کوئی انسان جب کسی چیز کو اختیار کرنا چاہتا ہے اور کوئی کام کرتا ہے تو شروع میں بہت زیادہ استغراق انہماک دکھاتا ہے اور اس قدر ذوق وشوق بلکہ حرص و لالچ میں مبتلا ہوتا ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر محنت ومشقت اور اپنی طاقت وہمت سے زیادہ مشغولیت اختیار کرتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں جلد ہی سست و کمزور پڑجاتا ہے اور اپنے مقصد کی راہ میں تھکن وبے دلی کا شکار ہوجاتا ہے۔ پس اگر کوئی عابد و زاہد اپنے اعمال واشغال میں میانہ روی اختیار کرے اور افراط وتفریط کی راہ سے بچ کر اعتدال کی راہ پر کہ جس کو صراط مستقیم کہا جاتا ہے گامزن رہے تو اس کے بارے میں بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جو کامل طور پر مراد پانے والے ہیں۔ لیکن اگر وہ افراط کی راہ پر چلا اور اس نے عبادت وطاعت اور دینی اعمال واشغال میں اس حد تک غور کیا اور اپنی بےدینی زندگی کو اس طرح نمایاں کیا کہ وہ عابد و زاہد مشہور ہوگیا اور لوگ اس کی عبادت گزاری اور زہد وتقوی کی طرف اشارہ کرنے لگے تو اس کی طرف کوئی التفات نہیں کرنا چاہئے اور اس کو نیک و صالح نہ سمجھنا چاہئے۔ واضح رہے کہ لفظ فارجوہ (اس کے بارے میں امید رکھو) اور لفظ ولاتعدوا اس کو عابد و زاہد شمار نہ کرو کے ذریعہ ان دونوں قسم کے لوگوں کی عافیت کی طرف ایک مبہم اشارہ مقصود ہے کیونکہ کسی شخص کے اخروی انجام کا حقیقی علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے اس کے بارے میں کوئی انسان آخری فیصلہ نہیں کرسکتا لہٰذا مذکورہ الفاظ کے ذریعہ یہ حدیث صرف یہ بتانا چاہتی ہے کہ جو شخص میانہ روی کا راستہ اختیار کرتا ہے صحیح عمل کرتا ہے اور راہ راست سے بھٹکتا نہیں تو بظاہر اس کے بارے میں یہ امید رکھنی چاہئے کہ اس کی عاقبت سدھر گئی اور وہ نجات پا جائے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ افراط وتفریط کی راہ پر چل کر دنیاوی عزت وجاہ کا طلبگار ہوتا ہے اور گندم نما جو فروشی کا شیوہ اپنا کر فتنہ و فساد کے بیج بوتا ہے تو ظاہر میں اس کو فلاح یاب نہ سمجو اور اس کا شمار مخلص دینداروں میں نہ کرو۔ رہی عاقبت کی بات تو وہاں کا انجام دونوں صورتوں میں غیر واضح ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ خاتمہ کس حالت میں ہو اور آخرت میں کیا معاملہ ہوگا حکم مستوری ومستی ہمہ بر خاتمہ است کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گزرد اگرچہ عاقبت کے بارے میں بھی امید یہی رکھنی چاہئے کہ رحمت باری نے جس جس شخص کو اطاعت و عبادت کی توفیق بخشی ہے اور راہ مستقیم پر گامزن کیا ہے اس کی عاقبت ضرور سنورے گی اور اس کا خاتمہ یقینا ایمان و اخلاص پر ہوگا اس کی رحمت کاملہ کا ستور یہی ہے کہ نیکوکاروں کو بری راہ پر کم ہی لگایا جاسکتا ہے جب کہ اکثر یہی ہوتا کہ بدکاروں کو بالآخر نیکی کی طرف کھینچ لیا جاتا ہے۔
Top