مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5217
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج في آخر الزمان رجال يختلون الدنيا بالدين يلبسون للناس جلود الضأن من اللين ألسنتهم أحلى من السكر وقلوبهم قلوب الذئاب يقول الله أبي يغترون أم علي يجترؤون ؟ فبي حلفت لأبعثن على أولئك منهم فتنة تدع الحليم فيهم حيران . رواه الترمذي .
ریا کار دین داروں کے بارے میں وعید
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ (میں تمہیں بتاتا ہوں) کہ اخیر زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو دین کے نام پر دنیا کے طلب گار ہوں گے (یعنی دینی و اخروی اعمال کے ذریعہ دنیا کمائیں گے از راہ تملق وچاپلوسی اور اظہار تواضع لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے دنبوں کی کھال کا لباس پہنیں گے (تاکہ لوگ انہیں عابد و زاہد، دنیاوی نعمتوں سے بےپرواہ اور آخرت کے طلبگار سمجھ کر ان کے مرید ومعتقد ہوں) ان کی زبانیں تو شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی لیکن ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے (یعنی ان کی باتیں تو بڑی خوشگوار من پسند اور نرمی وملائمت سے بھر پور ہوں گی اور ان کی تقریر و گفتگو سن کر لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے بڑے ہمدرد و بہی خواہ اور غم خوار دوست ہیں اور ان کے دل میں دین وملت کا بہت درد ہے، لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ اپنے ذاتی اغراض و منافع کے لئے دوستی و دشمنی کرنے اور اہل تقویٰ اور دین وملت کے حقیقی خدمت گاروں کو نقصان و تکلیف پہنچانے اور دیگر بہیمانہ وحیوانی خصلتوں میں ان کے دل بھیڑیے کے دل کی طرح سخت اور شقی ہوں گے) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔ کیا یہ لوگ میری طرف سے مہلت دئیے جانے اور میرے ڈھیل دینے کے سبب سے مغرور ہوگئے ہیں اور فریب میں مبتلا ہیں ( یعنی کیا یہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں ان کا معین و مددگار ہوں اور اس دنیا میں جو کامرانیاں اور کامیابیاں نصیب ہیں وہ ان پر میری رحمت کے نازل ہونے کی بنا پر ہیں؟ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم اس قسم کے لوگوں کو اسی طرح ڈھیل دیا کرتے ہیں یا اس جگہ اغترا سے مراد اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنا اور اپنے افعال بد سے توبہ نہ کرنا ہے اس صورت میں یخترون کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ میرے غضب اور میرے عذاب سے نہیں ڈرتے اور کیا ان میں اتنی جرات ہوگی ہے کہ اعمال صالح کے ذریعہ اور دین کے نام پر لوگوں کو دھوکا دے کر گویا میری مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقینا ان لوگوں پر انہیں میں سے فتنہ وبلا مسلط کر دوں گا (یعنی انہیں لوگوں میں سے ایسے امراء و حکام اور ایسے افراد وگروہ متعین کر دوں گا جو ان کو آفات و مصائب اور طرح طرح کے نقصان وضرر میں مبتلا کردیں گے۔ اور وہ آفات مصائب بڑے سے بڑے دانشور عقلمند شخص کو بھی ان آفات مصائب کو دور کرنے، ان پر آشوب حالات سے گلو خلاصی پانے اور ان کے سلسلے میں کسی مناسب وموزوں اقدام وکاروائی کرنے سے عاجز و حیران کردیں گے۔ (ترمذی)

تشریح
یختلون (خاء کے جزم اور تاء کے زیر کے ساتھ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ ان اعمال کے ذریعہ کہ جو آخرت کے لئے کئے جاتے ہیں، دنیا حاصل کریں گے۔ یا یہ کہ وہ لوگ دین کے بدلہ میں دنیا کمائیں گے اور دینی و اخروی مفاد و مصالح پر دنیاوی اور مادی مفاد و منافع کو ترجیح دیں گے۔ اور زیادہ صحیح معنی یہ ہوں گے کہ وہ لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر دنیا والوں کو دھوکا دیں گے، بایں طور کہ وہ دنیا کمانے کی خاطر اپنی ظاہری وضع قطع اور اپنے ظاہری اعمال و اخلاق کا ایسا دلفریب مظاہرہ کریں گے کہ دنیا والے ان کو سچا عابد زاہد اور دین وملت کا مخلص بہی خواہ سمجھ کر ان کے ساتھ عقیدت و محبت رکھیں گے اور سادہ لوح مسلمان ان کے مرید ومعتقد بن کر ان کی مراد پوری کریں گے۔ مثلا وہ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے پابند نظر آئیں گے اور اوراد وظائف ذکر و شغل کی محفلیں سجائیں گے اپنے اردگرد زہد وتقویٰ کی دیواریں کھڑی کئے نظر آئیں گے، موٹے جھوٹے کپڑوں کا لباس پہنیں گے۔ دینداروں کی سی شکل و صورت بنائیں گے ان کی تحریر وتقریر، دین وآخرت کی تلقین وتعلیم موعظت و نصیحت کی باتوں، ملت کی بھی خواہی مسلمانوں کے مفاد اور باہمی ہمدردی و غمگساری سے پر نظر آئے گی، لیکن یہ تمام چیزیں صدق و اخلاص سے خالی ریا وسمعہ کے طور پر ہوں گی، جن کا واحد مقصد مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر دنیا سمیٹنا اور صرف ذاتی منافع حاصل کرنا ہوگا۔ پس ایسے لوگوں کی اس ریاء کارانہ زندگی کے خلاف یہ خدائی تنبیہ بیان فرمائی گئی کہ انہیں اس گھمنڈ میں ہرگز نہ رہنا چاہئے کہ ان کی یہ دھوکا کی ٹٹی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی اور وہ اپنی اس ریاء کارانہ زندگی کی سزا اسی دنیا میں نہیں بھگتیں گے۔ اللہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں ان لوگوں کو ضرور مزا چکھاؤ نگا، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ میرا غضب و قہران پر یقینا نازل ہوگا، میں ان پر ایسے امراء و حکام مسلط کر دوں گا اور انہیں میں سے کچھ ایسے لوگ اور گروہ کھڑے کر دوں گا، جو ان کی ناؤ کو آفات و مصائب، ذلت و خواری اور تباہی و بربادی کے بھنور میں ڈال دیں گے ان کی ریاء کارانہ زندگی کا پردہ چاک کریں گے اور ان کو ایسے ایسے فتنوں میں مبتلا کریں کہ وہ نجات کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے، وہ اپنی اس خود ساختہ شان و شوکت، عزت و عظمت اور جاہ ومنصب کو بچانے کے لئے جس قدر ہاتھ پاؤں ماریں گے اسی قدر ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی کے حلقے ان کے گرد تنگ ہوتے جائیں گے اور بڑے بڑے دانشور، عقلمند لوگ بھی ان آفات و مصائب سے گلو خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں نکال پائیں گے۔
Top