مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5216
وعن أبي هريرة قال قلت يا رسول الله بينا أنا في بيتي في مصلاي إذ دخل علي رجل فأعجبني الحال التي رآني عليها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم رحمك الله يا أبا هريرة لك أجران أجر السر وأجر العلانية . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب .
اخروی مقاصد کے لئے اپنے کسی نیک عمل کی شہرت پر خوش ہونا " ریا " نہیں ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ میں اپنے گھر میں مصلیٰ پر نماز پڑھ رہا تھا کہ اس وقت اچانک ایک شخص میرے پاس آیا، مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ اس نے مجھے نماز پڑھنے کی حالت میں دیکھا ہے تو کیا اس وقت میرا خوش ہونا ریاء میں شمار ہوا یا نہیں؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ابوہریرہ! تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو، تم دو ثواب کے مستحق ہوئے ایک تو پوشیدہ کا اور دوسرا ظاہر ہونے کا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جو اس بات سے خوش ہوئے کہ اس شخص نے ان کو نماز کی حالت میں دیکھا، تو اس کا سبب حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ پاکیزہ جذبہ تھا کہ مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر اس میں بھی اس وقت کی نماز کے تعلق سے میری اتباع کا داعیہ پیدا ہوگا اور یہ شخص بھی اسی طرح نماز پڑھے گا جس طرح میں پڑھ رہا ہوں، یا ان کی خوشی کا سبب یہ تھا کہ ان کی حالت نماز گویا ایک شخص کے سامنے نیکی کے راستہ کے اظہار و اعلان کا باعث بنی اور اس شخص کو اس وقت کی نماز کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بنی اور جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا انہی بجا طور پر یہ خوش کن توقع ہوئی کہ جب یہ شخص نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز کا مجھے بھی ثواب ملے گا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت ابوہریرہ ؓ کا خوش ہونا اس طبعی خواہش کی تکمیل کے تئیں تھا جو شریعت کی نظر میں بھی پسندیدہ ہے یعنی ہر انسان کی طبعی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب اس کو کوئی دیکھے تو وہ اچھی حالت میں ہو کوئی بھی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ بری حالت میں دیکھا جائے اور ظاہر ہے کہ اس طبعی خواہش کی بنیاد ریاء وسمعہ پر نہیں ہوتی بلکہ قلب سلیم کے تقاضہ اور پاکیزگی خیال پر ہوتی ہے پس یہ بات اس ارشاد نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے کہ من سرتہ حسنتہ وسائتہ سیئتہ فہو مومن نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ہو خیر ممایجمعون)۔ لہٰذا مومن کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ نیک اعمال و احوال کی توفیق حاصل ہونے پر خوش ہوتا ہے جس طرح کہ غیر مومن بہت زیادہ دنیاوی مال و زر حاصل ہونے پر خوش ہوتا ہے ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کا خوش ہونا اس احساس شکر کے طور پر تھا کہ اس شخص کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان عبادت و توفیق کے ساتھ متعارف ہوا اور ایک نمازی کے طور پر جانا پہچانا گیا، ان لوگوں کے زمرہ میں شمار ہونے کا موقع نصیب ہوا، جو نماز جیسی اہم عبادت اور اسلام کے سب سے بڑے رکن کو قائم کرتے ہیں اور ایک مسلمان اس بات کا گواہ بنا۔ یہ قول حدیث کے الفاظ اجر السر واجر العلانیۃ کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے۔
Top