مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5212
وعن أبي ذر قال قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت الرجل يعمل الخير ويحمده الناس عليه . وفي رواية يحبه الناس عليه قال تلك عاجل بشرى المؤمن . رواه مسلم .
کسی عمل خیر کی وجہ سے خود بخود مشہور ہوجانا ریا نہیں ہے
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتائیے جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ اور ایک روایت میں لوگ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں کے بعد یہ بھی ہے، کہ اور وہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں (ایسے شخص کا کیا حکم ہے اس کا اجر وثواب کالعدم ہوجاتا ہے یا نہیں؟ ) حضور ﷺ نے یہ سوال سن کر فرمایا کہ لوگوں کا اس شخص کی تعریف و توصیف کرنا اور اس کو محبوب رکھنا درحقیقت اس کے حق میں مومن کے ذریعہ جلد ملنے والی بشارت ہے۔ (مسلم)

تشریح
جلد ملنے والی بشارت کا مطلب یہ ہے کہ ایک سعادت و بشارت تو وہ ہے جو باقی ہے اور آخرت میں ملے گی اور ایک سعادت و بشارت یہ ہے کہ جو جلد ہی یعنی اسی دنیا میں مل گئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے اس عمل خیر کا اصل ثواب آخرت میں پانے سے پہلے ایک اور اجر وثواب اسی دنیا میں یہ پا لیا کہ لوگوں نے اس کی تعریف و توصیف کی اور اس کو اپنا محبوب قلب ونظر بنا لیا اور اس کے حق میں لوگوں کو یہ معاملہ گویا اس بات کی بشارت ہے کہ اس کا وہ عمل خیر مقبول ہوگیا اور وہ آخرت میں اجر وثواب پائے گا۔ بہرحال حضور ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ یہ واضح فرمایا کہ اس شخص کا وہ عمل خیر کہ جس کی وجہ سے وہ دنیا والوں کی نظر میں قابل احترام اور محبوب بنا ہے ریاء نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کو اس عزت و احترام اور محبت کے حاصل ہونے میں اس کے اپنے قصد و ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس عمل خیر کو اختیار کرنے میں اس کی نیت اور اس کا قصد و ارادہ، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور ثواب آخرت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس شخص کو اس دنیا میں بھی مذکورہ سعادت کی صورت میں اجر وثواب عطا فرما دیا۔
Top