مشکوٰۃ المصابیح - دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان - حدیث نمبر 5183
وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ينادي مناد يوم القيامة أين أبناء الستين ؟ وهو العمر الذي قال الله تعالى أولم نعمركم ما يتذكر فيه من تذكر وجاءكم النذير رواه البيهقي في شعب الإيمان
ساٹھ سال کی عمر، بڑی عمر ہے
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اعلان کرنے والا (فرشتہ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کرے گا کہ ساٹھ سال کی عمر والے لوگ کہاں (یعنی دنیا میں جن لوگوں نے ساٹھ سال کی عمر پائی، وہ اپنی عمر کا حساب دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور یہ عمر، وہ عمر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ کیا ہم نے تم کو ایسی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرے حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
ڈرانے والا سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات یعنی قرآن مجید اور اس کے رسول ہیں، یا پھر اس سے مراد بڑھاپا اور موت ہیں، حاصل یہ کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اتنی طویل عمر عطا کی ہو اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کے اتنے زیادہ مواقع نصیب کئے ہوں وہ شخص اگر عقل و دانش سے کام لے کر اپنی آخرت کی بھلائی و کامیابی کے لئے کچھ نہ کرسکے اور عمر کا اتنا طویل عرصہ یوں ہی گنوا کر اس دنیا سے چلا جائے تو اس سے زیادہ احمق ونادان اور اس سے زیادہ بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو قیامت کے دن سخت جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہاں کوئی اور عذر خواہی اس کے کام نہیں آئے گی۔
Top