مشکوٰۃ المصابیح - دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان - حدیث نمبر 5178
وعن أبي كبشة الأنماري أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ثلاث أقسم عليهن وأحدثكم حديثا فاحفظوه فأما الذي أقسم عليهن فإنه ما نقص مال عبد من صدقة ولا ظلم عبد مظلمة صبر عليها إلا زاده الله بها عزا ولا فتح عبد باب مسألة إلا فتح الله عليه باب فقر وأما الذي أحدثكم فاحفظوه فقال إنما الدنيا لأربعة نفر عبد رزقه الله مالا وعلما فهو يتقي فيه ربه ويصل رحمه ويعمل لله فيه بحقه فهذا بأفضل المنازل . وعبد رزقه الله علما ولم يرزقه مالا فهو صادق النية ويقول لو أن لي مالا لعملت بعمل فلان فأجرهما سواء . وعبد رزقه الله مالا ولم يرزقه علما فهو يتخبط في ماله بغير علم لا يتقي فيه ربه ولا يصل فيه رحمه ولا يعمل فيه بحق فهذا بأخبث المنازل وعبد لم يرزقه الله مالا ولا علما فهو يقول لو أن لي مالا لعملت فيه بعمل فلان فهو نيته ووزرهما سواء . رواه الترمذي وقال هذا حديث صحيح
وہ چار آدمی جن کے حق میں دنیا بھلی یا بری ہے
حضرت ابوکبشہ انماری (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ تین باتیں ہیں جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا سکتا ہوں اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں (یعنی تمہارے سامنے اپنی ایک حدیث بیان کرتا ہوں تم اس کو یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا پس وہ تین باتیں جن کی حقانیت وصداق پر میں قسم کھا سکتا ہوں، یہ ہیں کہ بندہ کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے (صدقہ و خیرات) کی وجہ سے کم نہیں ہوتا (یعنی کسی بندہ کا اپنے مال کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرنا بظاہر تو اپنے مال کو کم کرنا اور گھٹانا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو کوئی نقصان اور گھاٹا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا صدقہ و خیرات کرنا دنیاوی طور پر بھی اس کے مال و اسباب میں خیر و برکت کا موجب ہے اور آخرت میں بھی حصول ثواب کا ذریعہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کثرت و زیادتی کے حکم میں ہوگی نہ کہ نقصان کے حکم میں۔ جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور اس کا مال ناحق لے لیا جائے اور وہ بندہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو بڑھاتا ہے (یعنی اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ہونا اگرچہ ظاہری طور پر اس کی ذلت کے مترادف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس بندہ کی عزت و مرتبہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ جو شخص ظلم کرتا ہے اس کے ظلم کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کی ذلت بڑھ جاتی ہے، یا یہ مطلب کہ طلم و زیادتی کا شکار ہونے والا بندہ اگرچہ وقتی طور پر ذلت وکمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے مگر انجام کار اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس کی عزت و مرتبہ کو بڑھا دیتا ہے جیسا کہ ظالم اگرچہ وقتی طور پر سربلند ہوجاتا ہے مگر آخرکار اپنے ظلم کی وجہ سے نہایت ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے اور دنیا والوں کی نظر میں بری طرح گر جاتا ہے اگرچہ وہ کتنی ہی طویل مدت کے بعد اس انجام بد کو کیوں نہ پہنچے، چناچہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ قدرت کی کرشمہ سازی صورت حال کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ ظالم ایک نہ ایک دن اپنی سربلندی کھو دیتا ہے اور کبھی زور آور ہونے کی وجہ سے جس شخص پر ظلم و زیادتی کیا کرتا تھا اپنے انجام کو پہنچ کر اسی مظلوم کو زیر دست اور اس کے سامنے ذلیل وسرنگوں ہوجاتا ہے۔ اور جس بندہ نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی ضرورت و حاجت کی وجہ سے نہیں بلکہ مال و دولت جمع کرنے اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے لوگوں سے مانگنا شروع کر دے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے (یعنی اس کو طرح طرح کے احتیاج و افلاس میں مبتلا کردیتا ہے یا اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو بھی ختم کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ نہایت خرابی میں پڑجاتا ہے) اور رہی اس حدیث کی بات جس کو میں نے تمہیں سنانے کے لئے کہا تھا تو اب میں اس کو بیان کرتا ہوں (دھیان سے سنو اور) اس کو یاد رکھو، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لئے ہے (یعنی یہ دنیا اپنے مال و دولت کے احوال اور اپنی بھلائی برائی کے اعتبار سے چار طرح کے آدمیوں میں منحصر ہے) ایک تو وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے مال کو مصارف خیر میں خرچ کرنے کا طریقہ جانتا ہے اور اس کے اثرات و کیفیات سے بھی باخبر ہے) پس وہ بندہ اپنے مال و دولت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے (یعنی اس کو حرام و ناجائز اور ناپسندیدہ حق امور میں خرچ نہیں کرتا) اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرتا ہے اور اس مال وزر میں سے اس کے حق میں مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے (یعنی مال و دولت کے تئیں اللہ تعالیٰ نے جو حقوق متعین کئے وہ ان کو احکام الٰہی کی تکمیل کے لئے ادا کرتا ہے، مثلا زکوٰۃ نکالتا ہے، صدقہ و خیرات کرتا ہے، مالی کفارات ادا کرتا ہے اور ضیافت ایمانداری میں خرچ کرتا ہے چناچہ اس بندہ کا بہت بڑا اور کامل ترین مرتبہ ہے (یعنی وہ بندہ دنیا میں اچھے خصائل و احوال سے متصف قرار دیا جاتا ہے یا آخرت میں اعلیٰ مراتب کا مستحق قرار پاتا ہے)۔ دوسرا وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم تو عطا کیا کہ جس کے ذریعہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مال کو کسی کام میں صرف کرنا اللہ کی رضا و خوشنودی اور ہر طرح کے اجر وثواب کا باعث ہے اور کس کام میں خرچ کرنا اللہ کی ناراضگی اور ہر طرح کے خسران عذاب کا سبب ہے) لیکن اس کو مال عنایت نہیں فرمایا پس وہ بندہ (اپنے علم کے سبب سچی نیت رکھتا ہے اور حصول مال و دولت کی خواہش و آرزو رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال اور روپیہ پیسہ ہوتا تو میں اس کے تئیں اچھے عمل کرتا جیسا کہ وہ فلاں شخص اپنے مال وزر کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے (یعنی جس طرح فلاں شخص کو اللہ نے علم صادق کے ساتھ مال و دولت سے بھی سرفراز کیا ہے اور وہ اس مال کو اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اچھے کاموں میں خرچ کر کے، (یعنی ادائیگی زکوۃ، اقرباء کے ساتھ حسن سلوک اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کر رہا ہے، اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس علم کے ساتھ مال و دولت بھی عطا فرماتا تو میں بھی اس شخص کی طرح اپنے مال وزر کو اللہ کی رہ میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کرتا) چناچہ دونوں شخصوں کا ثواب برابر ہے (یعنی اگر پہلا شخص مالدار ہونے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں واقعتا اپنا مال خرچ کرتا ہے اور یہ دوسرا شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتا لیکن سچی نیت رکھنے کے سبب وہی اجر وثواب پاتا ہے جو پہلے شخص کو ملتا ہے) تیسرا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے لیکن علم نہیں دیا (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ اللہ سے ڈرے اور اپنے مال کو حقوق کی ادائیگی میں خرچ کرے) پس وہ بندہ بےعلم ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے میں بہک جاتا ہے (بایں طور کہ اول تو لالچ وحرص اور دنیا کی محبت کی وجہ سے بخل کرتا ہے کہ کسی بھی اچھے کام اور ادائیگی حقوق میں خرچ کرنے کا روادار نہیں ہوتا اور اگر کسی فلاحی، رفاہی کام یا کسی کی مدد و اعانت میں کچھ خرچ بھی کرتا ہے تو مقصد محض نام ونمود اور اپنی بڑائی و ثروت کا اظہار ہوتا ہے) وہ (اپنی بےعملی کے سبب) اس مال و دولت کے بارے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے (یعنی آمدنی کے ایسے وسائل و ذرائع سے اجتناب و احتیاط نہیں کرتا جو حرام و ناجائز اور مشتبہ ہوتے ہیں اور نہ ایسے امور میں اپنا مال خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے جو غیر شرعی اور ناپسندیدہ حق ہیں) اور علم و تربیت کی کمی، نیز جذبہ ترحم و ہمدردی کے فقدان اور حرص وبخل کی کثرت کی وجہ سے اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ مالی احسان و سلوک نہیں کرتا ہے اور نہ ان حقوق کی تعمیل کرتا ہے جو اس کے مال و دولت سے متعلق ہیں (یعنی نہ تو زکوٰۃ اور دوسرے صدقات واجبہ کے ذریعہ اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور نہ بندوں کے حقوق مطالبات کی ادائیگی کی پرواہ کرتا ہے، چناچہ یہ بندہ بد ترین مرتبہ کا ہے۔ اور چوتھا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال عطا کیا ہے اور نہ علم دیا ہے (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ خیر وشر کے درمیان تمیز کرسکے اور یہ پہچان کرسکے کہ میرے حق میں کون سی چیز بہتر ہے اور کون سی چیز بری) پس وہ بندہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال اور روپیہ پیسہ ہوتا تو میں بھی اس کو فلاں شخص کی طرح (برے کاموں میں) خرچ کرتا، چناچہ یہ بندہ اپنی نیت کے سبب مغضوب ہے ( یا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ پس یہ بندہ بری نیت رکھنے والا ہے) اور اس کا گناہ اس تیسرے شخص کے گناہ کے برابر ہے یعنی وہ تیسرا شخص اگرچہ اپنا مال برے کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور یہ چوتھا شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے برے کاموں میں خرچ کرنے کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن چونکہ برے کاموں میں خرچ کرنے کی نیت رکھتا ہے اس سبب سے اس کو بھی وہی گناہ ملتا ہے جو برے کاموں میں واقعتا خرچ کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

تشریح
یہاں نیت کو عزم کے معنی پر محمول کرنا چاہئے کیونکہ انسان گناہ کی محض خواہش ونیت پر نہیں بلکہ عزم پر ماخوذ ہوتا ہے اور اصطلاح طور پر عزم اس کو کہتے ہیں کہ انسان کے دل میں کسی گناہ کے کرنے کا خیال و ارادہ پیدا ہو اور وہ اس خیال و ارادہ کو پورا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑے لیکن خارجی طور پر کوئی ایسا مانع حائل ہو جس کی وجہ سے وہ اس گناہ کے کرنے اور اس تک پہنچنے پر قادر نہ ہو، کہ اگر وہ مانع باقی نہ رہے اور اس کو قدرت حاصل ہوجائے تو وہ بلا توقف اس گناہ کو کر ڈالے، مثلا اگر کوئی شخص زنا کرنا چاہے اور وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں اس حد تک سعی و کوشش کرے گا کہ اگر کوئی خارجی چیز اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرے تو وہ بےجھجک اور بلا توقف زنا میں مبتلا ہوجائے تو اس کی اس خواہش و ارادہ کا اتنا پختہ (باسعی ہونا عزم کہلائے گا اور وہ اس عزم پر ماخوذ ہوگا اور اس کو اللہ کی نظر میں گنہگار قرار دیا جائے گا کیونکہ عزم اگرچہ واقعۃً زنا نہیں ہے لیکن جس طرح زنا ایک گناہ ہے اسی طرح زنا کا عزم بھی ایک مستقل گناہ ہے۔ اس موقع پر زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس سلسلہ کی پوری بحث کو مختصر طور پر بیان کردیا جائے، چناچہ جاننا چاہئے کہ اول تو وسوسہ شیطان ہے، یعنی بغیر کسی کسب و ارادہ کے دل میں کسی گناہ کا خیال خود بخود آجائے اور گزر جائے، جمے نہیں، اس کو ہاجس کہا جاتا ہے اور ہا جس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ لیکن اگر وہ خیال دل میں بیٹھ جائے اور طبیعت کے اندر جو لانی وگردش کرنے لگے تو اس کو خاطر کہتے ہیں، خاطر بھی اس امت کے حق میں مرفوع اور قابل معافی قرار دیا گیا ہے، اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور یہ اس امت کے خصائص میں سے ہے۔ اس کے بعد ہم کا نمبر آتا ہے۔ ہم یہ ہے کہ گناہ کا وہ خیال دل میں اس طرح بیٹھ جائے کہ اس گناہ کے قصد و ارادہ اور نیت کی صورت اختیار کرلے، حسنات (نیکیوں) میں تو ہم کا اعتبار کیا جاتا ہے کہ کسی نیکی کی محض نیت اور اس کا قصد و ارادہ، پوری نیکی کے مترادف قرار دیا جاتا ہے لیکن سیئات (گناہوں) کے معاملہ میں محض نیت اور ارادہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد عزم ہے جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عزم قابل مواخذہ ہے۔ حدیث کے اس جملہ ویعمل اللہ فیہ بحقہ میں فیہ کی ضمیر حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے تو مال کی طرف لوٹائی ہے (جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے) لیکن ملا علی قاری (رح) نے فیہ کی ضمیر، مال کے بجائے، علم کی طرف لوٹائی ہے، اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اور وہ شخص اس علم کے تعلق سے اور اس کے حق کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہے بایں طور کہ اس علم پر عمل کر کے اور حقوق اللہ وحقوق العباد ادا کر کے اس علم کا حق ادا کرتا ہے، تاہم ملا علی قاری نے ابن مالک کی طرف منسوب کر کے یہ قول بھی لکھا ہے کہ فیہ کی ضمیر مال کی طرف راجع ہے۔ چناچہ حضرت شیخ عبدالحق نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، نیز حضرت شیخ نے لفظ یتخبط کے یہ معنی لکھے ہیں وہ شخص کہ جس کو صرف مال عطا ہوتا ہے علم حاصل نہیں ہوتا اپنی بےعلمی اور بدعقلی کی وجہ سے اپنے مال و دولت کے معاملہ کوئی صحیح راہ اختیار نہیں کر پاتا اور اچھے اور برے مصارف کے درمیان تمیز نہ کر پانے کی وجہ سے اس کو ادھر ادھر خرچ کرتا رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال زیادہ تر ان کاموں میں خرچ ہوتا ہے جو غیر شرعی اور ناپسندیدہ حق ہوتے ہیں۔ چناچہ مابعد کے الفاظ لایتقی فیہ ربہ سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ لیکن ملا علی قاری نے اس جملہ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ وہ شخص مال و دولت کے حصول میں سخت بےاعتدالی کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ ہر وقت بس پیسہ کمانے اور دولت جمع کرنے کے چکر میں رہتا ہے اس کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا اور ہر حرکت و سکون کا واحد محور حصول زر ہوتا ہے، علاوہ ازیں وہ اس مال و دولت کے تئیں طرح طرح کے احوال میں مبتلا ہوتا ہے کہ کبھی تو اس کو ادھر ادھر بےدریغ خرچ کرتا ہے اور کبھی اس طرح بخل وخست کرتا ہے کہ بنیادی ضروریات اور ادائیگی حقوق میں خرچ کرنے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔
Top