مشکوٰۃ المصابیح - خدا کی اطاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان - حدیث نمبر 5172
وعن سفيان الثوري قال ليس الزهد في الدنيا بلبس الغليظ والخشن وأكل الجشب إنما الزهد في الدنيا قصر الأمل . رواه في شرح السنة
حقیقی زہد کیا ہے؟
حضرت سفیان ثوری (رح) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ دنیا میں زہد اس کا نام نہیں ہے کہ موٹے چھوٹے اور سخت کپڑے پہن لئے جائیں اور روکھا سوکھا اور بدمزہ کھانا کھایا جائے بلکہ دنیا سے زہد اختیار کرنا حقیقت میں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا نام ہے۔ (شرح السنۃ)

تشریح
غلیظ سے وہ کپڑا مراد ہوتا ہے جس کے سوت نہایت موٹے اور بھدے ہوں اور خشن سے مراد وہ کپڑا ہوتا ہے جو نہایت سخت اور کھدری بناوٹ کا ہو جشب اس کھانے کو کہتے ہیں جو نہایت بدمزہ ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بغیر سالن کی روٹی کو جشب کہتے ہیں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا مطلب ہے دنیاوی چیزوں کے حصول کی خواہشات اور درازی عمر کی تمنا کو ختم کر کے بلا تاخیر توبہ و اناب اور علم وعمل کی راہ اختیار کرلینا اور ہمہ وقت موت کے لئے تیار رہنا۔ حضرت سفیان ثوری (رح) کے مزکورہ بالا عارفانہ قول کا مطلب یہ ہے کہ زہد، دنیا سے بےرغبتی بےاعتنائی کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسانی قلب پر اس طرح طاری ہو کہ وہ قلب دنیا سے بیزار اور آخرت کی طرف راغب و متوجہ رہے، گویا زہد کا مدار اس بات پر نہیں ہے کہ انسان کا قالب یعنی جسم وبدن دنیا کی جائز ومباح چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے اس زہد کے معاملہ میں یہ دونوں برابر ہوں یعنی ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشاک وخوش خوراک ہونے کے باوجود قلبی طور پر ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ و راغب رہ سکتا ہے اور ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشا کی وخوش خورا کی سے بیزار رہتے ہوئے بھی قلبی طور پر آخرت کی طرف زیادہ متوجہ و راغب نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ لباس کی بےحیثتی وسادگی اور کھانے کی بدمزگی، سلوک و طریقت کی راہ میں بندے کی استقامت و استواری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ جو سالک جسمانی طور پر تو دنیا سے اجتناب کرے لیکن اس کے دل میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو تو یہ چیز اس کے لئے نہایت مہلک اور تباہ کن ہے۔ اس کے برخلاف اگر وہ جسمانی طور پر تو دنیا کی جائز ومباح نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اٹھائے، مگر اس کا دل دنیا کی محبت سے خالی اور آخرت کی طرف متوجہ ہو تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر ہے۔ جاننا چاہئے کہ دل کی مثال کشتی کی سی ہے کہ اگر پانی کشتی کے اندر آجائے تو وہ نہ صرف کشتی بلکہ اس میں بیٹھے لوگوں کو بھی ڈبو دیتا ہے، لیکن وہی پانی جب اسی کشتی کے باہر اور اس کے گرد رہتا ہے تو اس کشتی کو رواں کرتا ہے اور منزل تک پہنچاتا ہے، اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا ہے نعم المال المال الصالح للرجل الصالح اور اسی وجہ سے صوفیاء کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرات اسی طرح کا لباس پہنا کرتے تھے جیسا کہ عام طور پر رائج تھا بلکہ بعض نے تو امیروں اور رئیسوں جیسا لباس بھی پہنا ہے تاکہ ان کے باطنی احوال کا انکشاف نہ ہو۔
Top