مشکوٰۃ المصابیح - خدا کی اطاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان - حدیث نمبر 5167
عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال هذا ابن آدم وهذا أجله ووضع يده عند قفاه ثم بسط فقال وثم أمله . رواه الترمذي
انسان کی موت اس کی آرزو سے زیادہ قریب ہے
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ یہ تو ابن آدم (انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف رکھا (یعنی پہلے تو ایک جگہ اشارہ کر کے بتایا کہ یہ انسان ہے اور پھر اس جگہ سے ذرا پیچھے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ اس کی موت ہے) اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو پھیلایا (اور دور اشارہ کر کے) فرمایا کہ اس جگہ انسان کی آرزو ہے (یعنی انسان کی موت اس کے بہت قریب ہے جب کہ اس کی آرزو اس سے بہت دور ہے۔ (ترمذی)

تشریح
یہ ابن آدم ہے میں گویا حضور ﷺ نے مخاطبین کو ایک ظاہری اشارہ کے ذریعہ تصوراتی وجود کی طرف متوجہ کیا اور یہی اسلوب یہ اس کی موت ہے بھی اختیار فرمایا گیا۔ اس بات کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تو حضور ﷺ نے اپنے سامنے کی جانب زمین کے گوشہ پر یا ہوا میں اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کو یہ تصور کرو کہ یہاں انسان ہے، پھر اپنے ہاتھ کو پیچھے ہٹایا اور جس جگہ پہلے اشارہ فرمایا تھا اس کے بالکل قریب عقب میں ہاتھ کو رکھ کر بتایا کہ اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو جہاں انسان کی موت ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو بالشت اور انگلیوں کی کافی کشادگی کے ساتھ پھیلایا۔ یا بسط کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو اس جگہ سے کہ جہاں آپ ﷺ نے پہلے اشارہ فرمایا تھا، بہت آگے تک دراز کیا اور وہاں اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو جہاں گویا انسان کی آرزو ہے اس طرح آپ ﷺ نے اس اسلوب بیان اور اشارہ کے ذریعہ گویا لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور متنبہ فرمایا کہ انسان کی موت اس کے بہت قریب کھڑی ہے جب کہ اس کی وہ آرزوئیں اور امیدیں کہ جن کے پیچھے وہ مارا مارا پھرتا ہے اس سے بہت دور واقع ہیں۔ کسی شاعر نے، اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے، کیا خوب کہا ہے کل امری مصبح فی اہلہ والموت ادنیٰ من شراک نعلہ
Top