مشکوٰۃ المصابیح - خدا کی اطاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان - حدیث نمبر 5164
وعن ابن عمر قال أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض جسدي فقال كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل وعد نفسك في أهل القبور . رواه البخاري
دنیا میں مسافر کی طرح رہو
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے میرے جسم کے ایک حصہ (یعنی دونوں مونڈھوں) کو پکڑ کر فرمایا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گیر ہو اور تم اپنا شمار ان لوگوں میں کرو جو دنیا سے گزر گئے ہیں اور اپنی قبروں میں آسودہ خواب ہیں (یعنی تم مردوں کی مشابہت اختیار کرو کہ جس طرح وہ دنیا کی تمام چیزوں سے منہ موڑ کر ایک گوشہ میں پڑے ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی دنیاداری کے علائق سے اپنا دامن بنا کر نہایت سادگی اور یکسوئی کے ساتھ زندگی گزارو۔ (بخاری)

تشریح
میرک (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت کا بخاری کی طرف منسوب ہونا محل نظر ہے کیونکہ یہاں جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ بعینہ ترمذی کے روایت کردہ ہیں اور بخاری نے اس حدیث کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے وہ اس سے مختلف ہیں۔ او عابر سبیل میں حرف او یا تو تنویع کے لئے ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے اور یا یہ کہ یہاں یہ حرف بل کے معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے جو ترقی کے لئے آتا ہے، اس صورت میں پورے جملہ کا ترجمہ یوں ہوگا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو، بلکہ راہ گیر ہو۔ اس طرح بات میں زیادہ زور پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اس ارشاد گرامی کا مقصد جس مفہوم کو بیان کرنا ہے وہ زیادہ پر تاثیر انداز میں واضح ہوتا ہے کیونکہ مسافر تو پھر بھی کچھ دنوں کے لئے یا کچھ عرصہ کے لئے کہیں کہیں ٹھہر کر وہاں کی چیزوں میں کسی نہ کسی حد تک مشغول ہوتا ہے اور ان سے کچھ نہ کچھ تعلق اس کو ضرور رکھنا پڑتا ہے، لیکن جو شخص سر راہ گزر رہا ہوتا ہے وہ بس آگے کی طرف چلتا ہی رہتا ہے اس کو نہ تو اس راستے کی کسی چیز سے سروکار ہوتا ہے اور نہ ادھر ادھر کی مشغولیت میں اپنا وقت ضائع کر کے اپنے سفر میں رخنہ اندازی کو گوارا کرتا ہے۔ حدیث کے آخری جزء کی تشریح تھوڑی سی تفصیل کا تقاضہ کرتی ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ موت کی حقیقت کیا ہے؟ بدن سے روح کے تصرف کا منقطع ہوجانا، روح و بدن کے باہمی رشتہ کا ٹوٹ جانا اور بدن کا روح کے آلہ کار کی حیثیت سے باہر ہوجانا، موت کا مفہوم ہے! بدن کی موت سے روح معدوم و نابود نہیں ہوجاتی صرف اس کی وہ حیثیت وحالت بدل جاتی ہے جو بدن کے ساتھ تعلق رکھنے کی صورت میں اس کو حاصل ہوتی ہے مثلاً یہ بدن کی موت کے ساتھ اس کی بصارت اس کی سماعت اس کی گویائی اور اسی طرح ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضائے جسم کی وہ طاقتیں اس سے سلب کرلی جاتی ہیں جن کے ذریعہ وہ (روح) بدن پر اپنا تصرف ظاہر کرتی ہے، ایسے ہی اس کے تمام اہل و عیال، اقربا و آشنا اور دوست و عزیز اس سے جدا کر دئیے جاتے ہیں، نیز دنیا کی وہ تمام چیزیں اس سے الگ کردی جاتی ہیں، جن سے وہ اپنے بدن کے ساتھ تعلق رکھتی تھی جیسے گھر بار، اسباب و سامان، زمین وجائداد، فوج وحشم، لونڈی و غلام اور گھوڑے و دیگر چوپائے اور دیگر ضروری وغیر ضروری چیزیں، پس مردوں میں اپنا شمار کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا گویا اس مفہوم کا حامل ہے کہ انسان جسمانی علائق سے حتی الامکان قطع تعلق اختیار کرلے، جس کی صورت یہ ہے کہ اعضائے جسم پر سے روح کا وہ تصرف ختم کر دے جس کے پنجہ میں حرام و مکروہ امور کا ارتکاب ہوتا ہے اور اس میں یقین رکھے کہ دنیا کی جو بھی چیزیں میرے تصرف واختیار میں ہیں، ان سب کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کی ملکیت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس بات کو اس کی علامت سمجھے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے پاس سے جاتی رہے تو کوئی غم نہ ہو اور کوئی چیز اپنے پاس آئے تو خوش نہ ہو، اسی طرح اپنے اہل و اولاد، عزیز واقا رب اور دوستوں وغیرہ سے تعلق محبت کے وہ جذبات منقطع کرلے جن کی وجہ سے حرام مکروہ چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے پس جس شخص نے اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کرلیا وہ دنیا سے بےتعلقی میں گویا مردوں کے مشابہ ہوگیا اور اس کا شمار آسودگان خاک کے حکم میں ہوگا۔ اس کے بعد اس شخص کی شان کے مناسب یہ بات ہوگی کہ وہ ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھے جن کے سبب اس کا مردوں کے مشابہ ہونا صحیح قرار پا سکے، مثلاً ایک تو یہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے ہر مطلوب سے دست کنارہ کش ہوجائے جیسا کہ موت کی صورت میں، تیسرے یہ کہ توکل کی راہ پر گامزن رہے یعنی دنیاوی اسباب و وسائل کی ناروا قید سے آزاد ہوجائے جیسا کہ موت کی صورت میں، چوتھے یہ کہ قناعت پر عامل رہے یعنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرے جیسا کہ موت کی صورت میں، پانچویں یہ کہ صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے اور ماسوی اللہ کی طرف نظر نہ اٹھائے تاکہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی مطلوب، کوئی محبوب اور کوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ موت کی صورت میں، چھٹے یہ کہ صبر کی راہ اختیار کرے یعنی ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ نفس امارہ سے قطع تعلق کرلے جیسا کہ موت میں، ساتویں یہ کہ رضا کے راستہ پر چلے یعنی اپنے نفس کی خوشنودی کے جال سے نکل کر حق سبحانہ وتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے دائرے میں آجائے، احکام ازلیہ کو بلاچوں و چرا تسلیم کرے اور اپنے تمام امور کو بغیر کسی اعتراض و منازعت کے حق تعالیٰ تدبیر و اختیار کے سپرد کر دے جیسا کہ موت کی صورت میں، آٹھویں یہ کہ ذکر سے غافل نہ رہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر میں اپنے دل اور اپنی زبان کو مشغول رکھے اور ماسوی اللہ کی یاد اور اس کے ذکر و خیال کی الجھن سے آزاد رہے جیسا کہ موت کی صورت میں اور نویں یہ کہ مراقبہ کو اختیار کرے یعنی ہر طرح کی قوت وسطوت اور ہر مقتدر طاقت سے بےنیاز ہو کر اور اس کو چھوڑ کر بس احکم الحاکمین کی طاقت وقدرت کا دھیان رکھے اور اس کی طاقت اور قدرت کو اپنے تمام امور کا مالک و متصرف جانے جیسا کہ موت کی صورت میں، پس یہ صفات و کیفیات پیدا ہوجائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مردوں کی مشابہت حاصل ہوگئی اور اہل قبور میں شمار کرانے کا حکم پورا ہوگیا اور آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد وعد نفسک من اہل القبور کا یہی مفہوم ہے اور یہی معنی اس حدیث کے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے موتوا قبل ان تموتوا موت آنے سے پہلے موت کو اختیار کرلو، چناچہ ایک موت تو وہ ہے جو اچانک روح وبدن کے باہمی رشتہ کو یکسر منقطع کردیتی ہے اور ایک موت وہ ہے جس کو انسان مذکورہ بالا صفات کی صورت میں اختیار کر کے اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالتا ہے اور یہی موت اختیاری موت کہلاتی ہے۔
Top