مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5151
وعن معاذ بن جبل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث به إلى اليمن قال إياك والتنعم فإن عباد الله ليسوا بالمتنعمين . رواه أحمد
راحت طلبی اور تن آسانی بندگان خاص کی شان کے منافی ہے
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ جب انہیں رسول کریم ﷺ نے (قاضی بنا کر یمن بھیجا تو ان کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے آپ کو راحت طلبی اور تن آسانی سے بچانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندگان خاص آرام و آسائش کی زندگی نہیں گزارتے۔ (احمد)

تشریح
تنعم کا مفہوم ہے نفسانی خواہشات کی تکمیل میں زیادہ سے زیادہ اہتمام و انصرام کرنا، بہت زیادہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کے درمیان رہنا اور کھانے پینے اور طبیعت و نفس کی مرغوبات کا حریص ہونا حاصل یہ کہ راحت طلبی وتن آسانی کی چیزوں میں پڑنا اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرنا، کافر و فاجر، غافل ونادان اور جاہل لوگوں کا خاصہ ہے، بندگان خاص کو ایسی زندگی سے کیا سروکار! چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ذرہم یأکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل فسوف یعلمون)۔ آپ ﷺ ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ وہ خوب کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں ان کو ابھی حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔ اور فرمایا۔ آیت (والذین کفروا یتمتعون ویأکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لہم) دوسری آیت (انھم کانوا قبل ذالک مترفین)۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے وہ کافر لوگ اس سے قبل دنیا میں بڑی خوشحال اور چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔
Top