مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5147
وعن عبدالله بن عمرو قال بينما أنا قاعد في المسجد وحلقة من فقراء المهاجرين قعود إذ دخل النبي صلى الله عليه وسلم فقعد إليهم فقمت إليهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ليبشر فقراء المهاجرين بما يسر وجوههم فإنهم يدخلون الجنة قبل الأغنياء بأربعين عاما قال فلقد رأيت ألوانهم أسفرت . قال عبد الله بن عمرو حتى تمنيت أن أكون معهم أو منهم . رواه الدارمي
فقراء مہاجرین کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد (نبوی) میں بیٹھے ہوئے تھے اور فقراء مہاجرین کا حلقہ جما ہوا تھا کہ اچانک نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے اور فقراء کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور (حضور ﷺ کی اتباع میں) فقراء کے قریب پہنچ کر ان کی طرف متوجہ ہوگیا (تاکہ آنحضرت ﷺ ان سے جو کچھ فرمائیں، ان ملفوظات کو میں بھی سن سکوں) چناچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ فقراء مہاجرین کو وہ بشارت پہنچا دینی ضروری ہے جو ان کو مسرور و شادماں بنا دے، پس وہ بشارت یہ ہے کہ فقراء مہاجرین جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ واللہ میں نے دیکھا کہ یہ بشارت سن کر فقراء کے چہروں کا رنگ روشن وتاباں ہوگیا۔ پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ یہ بشارت سن کر اور فقراء کے چہروں کی تابانی و شگفتگی دیکھ کر میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی ان ہی جیسا ہوتا یعنی اس دنیا میں مجھ پر بھی فقر و افلاس طاری ہوتا اور میں اس جماعت فقراء میں شمار ہوتا) یا یہ کہ ان میں سے ہوتا (یعنی آخرت میں اس جماعت کے ساتھ اٹھتا اور انہی کے ساتھ میرا حشر ہوتا۔ (دارمی)

تشریح
بما یسر وجوہہم میں لفظ وجوہ سے مراد یا تو ذات ہے یا جیسا کہ ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے یا یہ لفظ اپنے اصل معنی چہرے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ فقراء مہاجرین کو بشارت پہنچا دینی ضروری ہے جو ان کے دلوں کو خوش کر دے اور اس خوشی کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر و نمایاں ہو۔ اکون معہم او منہم میں حرف او تنویع کے لئے ہے اور اسی کے مطابق کا مطلب بھی بین القوسین بیان کردیا گیا ہے یا یہ کہ یہ صرف راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے یا تو ان اکون معہم فرمایا یا یہ کہ ان اکون منہم یعنی میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی فقراء مہاجرین میں سے ایک ہوتا۔
Top