مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5134
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا واحشرني في زمرة المساكين فقالت عائشة لم يا رسول الله ؟ قال إنهم يدخلون الجنة قبل أغنيائهم بأربعين خريفا يا عائشة لا تردي المسكين ولو بشق تمرة يا عائشة أحبي المساكين وقربيهم فإن الله يقربك يوم القيامة رواه الترمذي والبيهقي في شعب الإيمان وروى ابن ماجه عن أبي سعيد إلى قوله زمرة المساكين
مفلس ومسکین کی فضیلت
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ مجھ کو مسکین بنا کر زندہ رکھ، مسکینی ہی کی حالت میں مجھے موت دے اور مسکینوں ہی کے زمرہ میں میرا حشر فرما۔ حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا تو کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ ایسی دعا کیوں کرتے ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اس لئے کہ مساکین اپنے دوسرے فضائل و خوصوصیات اور حسن اخلاق و کردار کی وجہ سے آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں سے تو بہرہ ور ہوں ہی گے لیکن اس سے قطع نظر ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے! دیکھو عائشہ! کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے ناامید نہ جانے دینا بلکہ ہر حالت میں اس کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا اگرچہ اس کو دینے کے لئے تمہارے پاس کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو عائشہ ؓ اپنے دل میں مسکینوں کی محبت رکھ اور ان کو اپنی مجلسوں اور محفلوں کی قربت سے نواز یعنی ان کو حقیر کمتر جان کر اپنے یہاں آنے جانے سے مت روکو اگر تم ایسا کروگی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی قربت سے نوازے گا کیونکہ فقراء و مساکین کے ساتھ محبت ہمدردی کا برتاؤ کرنا اور ان کو اپنے قریب آنے دینا اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔ ترمذی، بیہقی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوسعید ؓ سے صرف زمرۃ المساکین تک نقل کیا ہے (یعنی ان کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا سوال و جواب اور حدیث کے باقی جملے نہیں ہیں)

تشریح
مسکین لفظ مسکنت سے نکلا ہے جس کے معنی تواضح کمزوری اور مفلسی کے ہیں۔ ویسے یہ لفظوں سکون اور سکینۃ سے بھی مشتق قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے معنی وقار، اطمینان اور تقدیر الٰہی کے اقرار و قبول کے ہیں اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ شرعی اصطلاح میں مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس کے پاس اتنا نہ ہو جو اس کے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے۔ مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں امت کے لئے یہ تعلیم و تلقین ہے کہ فقراء و مساکین کی فضیلت کو پہچانا جائے، ان کے ساتھ محبت و ہمدردی کا برتاؤ کیا جائے اور ان کے ساتھ ہم نشینی و قربت اختیار کی جائے تاکہ ان کی برکت مسلمانوں کو پہنچے۔ نیز اس حدیث میں فقراء و مساکین کے لئے یہ بڑی تسلی پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے حالات کی تنگی و سختی سے بددل و مایوس نہ ہوں بلکہ اپنے ان بلند درجات سے آگاہ ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس فانی دنیا کی زوال پذیر نعمتوں اور لذتوں سے محرومی کے عوض ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والے جہاں یعنی آخرت کی زندگی کے لئے عطا فرما دئیے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور ﷺ کا اپنے حق میں مسکین بننے کی دعا کرنا کیا مفہوم رکھتا تھا، تو اس بارے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اس دعا سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بس اتنی روزی دے جو گزارہ کے بقدر ہو اور جس سے زندگی کا وجود باقی رہے، نیز آپ کو دنیاوی مال و دولت اور اس کی نعمتوں و لذتوں میں مشغول نہ کرے، کیونکہ مال و دولت کی کثرت مقربین کے حق میں سخت وبال کا درجہ رکھتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ کہیں جا رہا تھا کہ راستہ میں اس کا گزر فقراء و صالحین کی ایک جماعت پر ہوا، ان لوگوں نے بادشاہ کے تئیں کسی التفات کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے، بادشاہ کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، اس نے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے جواب میں جو بات کہی اس کو یہاں نقل کرنا مقصود ہے، انہوں نے کہا ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے ساتھ محبت، ترک دنیا کا سبب ہے اور جن کے ساتھ عداوت ترک عقبی کا سبب ہے بادشاہ نے یہ جواب سنا تو ان سے دارو گیر کئے بغیر آگے بڑھ گیا اور کہنے لگا کہ ہم نہ تمہاری محبت حاصل کرسکتے ہیں اور نہ تمہارے ساتھ عداوت رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا اپنے حق میں مذکورہ دعا فرمانا اور پھر حضرت عائشہ ؓ کے پوچھنے پر اس دعا کی یہ توجیہ فرمانا کہ میرا مقصد وہ فضل و شرف حاصل کرنا ہے جو قیامت کے دن فقراء کو حاصل ہوگا وہ دولتمندوں سے چالیس سال پ ہے جنت میں دخل ہوں گے، یہ وہم پیدا کرتا ہے کہ فقراء بلا استثناء تمام دولتمندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے خواہ وہ دولتمند انبیاء ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سلسلہ میں زیادہ قوی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مذکورہ دعا اور اس کی توجیہہ میں مذکورہ ارشاد کا اصل مقصد ایک تو محض فقراء و مساکین کے فضل وشرف کو ظاہر کرنا ہے اور دوسرے اپنی اس طلب و خواہش کو ظاہر کرنا ہے کہ مجھے تمام انبیاء سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہو خواہ وہ انبیاء دولتمند ہوں یا فقراء پس حضور ﷺ کا اپنے بارے میں فقر و فاقہ کی زندگی کی دعا کرنا فقراء غیر انبیاء سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے نہیں بلکہ ان انبیاء سے پیچھے رہ جانے کے خوف کی بناء پر تھا جن کی زندگی فقر و فاقہ سے معمور تھی! اس وضاحت سے مذکورہ بالا وہم محل نظر ہوجاتا ہے۔ یا عائشہ الا تردی المسکین الخ (عائشہ کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے ناامید نہ جانے دینا) کے ذریعہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو یہ نصیحت فرمائی کہ جو مسکین و فقیر تمہارے پاس اپنی حاجت لے کر آئے اس کو کمتر و حقیر نہ جانو اور اس کو بےمراد واپس نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ محبت و نرمی سے پیش آؤ، ان کی حالت پر رحم کھاؤ اور جو کچھ میسر ہو اس کے دامن مراد میں ڈال دو، خواہ وہ کتنی ہی کمتر چیز کیوں نہ ہو اور اگر تمہارے پاس ایسی کوئی بھی چیز نہ ہو جس کے ذریعہ تم اس کا سوال پورا کرسکو تو اس صورت میں نہایت نرمی و بھلائی کے ساتھ معذرت کرو اور اس کو اچھے انداز میں واپس کرو۔ ابوالشیخ اور بیہقی نے حضرت عطاء بن ابی رباح سے نقل کیا ہے انہوں نے مشہور صحابی حضرت ابوسعید ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو! تمہاری تنگدستی و ناداری تمہیں اس بات پر نہ اکسانے پائے کہ تم اپنی روزی ناجائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرنے کی طلب رکھنے لگو، (یعنی اگر اللہ نے تمہیں تنگدستی و ناداری میں مبتلا کیا تو تم اپنی اس حالت پر صابر و شاکر رہ کر عزم و حوصلہ اور کردار کی پختگی کے ساتھ معاشی شدائد کا مقابلہ کرو، ایسا نہ ہو کہ روزی حاصل کرنے کے لئے ایسے ذرائع اختیار کرو جو شرع احکام کے خلاف اور انسانی اخلاق و کردار کی عظمت کے منافی ہیں) کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو اپنے بارے میں یہ دعا فرماتے سنا ہے کہ اے اللہ! تو مجھے فقر و ناداری کی حالت میں موت دے، دولتمندی کی حالت میں موت نہ دے اور میرا حشر مسکینوں کے زمرہ میں فرما پس یقینا سب سے بڑا بدبخت وہ شخص ہے جو دنیا کے فقر و افلاس کا بھی شکار ہو اور آخرت کے عذاب کا بھی مستوجب قرار پائے (یعنی جو شخص فقر و افلاس کی سختیوں سے گھبرا کر ناجائز طور پر اپنی روزی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اس سے بڑا بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے دنیا کی نعمتوں سے بھی محروم رہا اور حصول معاش کی راہ میں حرام ناجائز امور کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے آخرت کے عذاب کا بھی مستوجب قرار پایا۔ ملا علی قاری (رح) نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر اس ارشاد گرامی کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ بھی ہوتی تو یہی حدیث اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھی کہ صبر کرنے والا فقیر و مسکین، شکر گزار دولت مند سے افضل ہے۔ نیز ملاعی قاری (رح) نے اس موقع پر ان دو حدیثوں کا بھی ذکر کیا ہے جو فقر و ناداری کے سلسلہ میں عوام میں بہت مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث (الفقر فخری وبہ افتخر) ہے ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حفاظ جیسے علامہ عسقلانی وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث بالکل بےاصل ہے اور اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ دوسری حدیث کا دا لفقر ان یکون کفرا ہے اس کے بارے میں محدیثین نے وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث اول تو یقینی طور پر ضعیف ہے دوسرے اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول قلبی فقر و افلاس ہے جو جزع و فزع، شکوہ شکایت، قضا و قدر پر بےاطمینانی اور اللہ کی بنائی ہوئی قسمت پر اعتراض کرنے کے باعث ہوتا ہے، ورنہ جہاں تک معاشی فقر و افلاس کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ کی طرف سے انہی بندوں کو نصیب ہوتی ہے جن کو وہ آخرت میں بلند درجات پر پہنچانا چاہتا ہے اس لئے ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ الفقر شین عندالناس وزین عند اللہ یوم القیامہ (دیلمی) یعنی فقر و افلاس لوگوں کی نظر میں تو ایک عیب و برائی ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک زینت دینے والی چیز ہے۔
Top