مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5129
وعن أنس أنه مشى إلى النبي صلى الله عليه وسلم بخبز شعير وإهالة سنخة ولقد رهن النبي صلى الله عليه وسلم درعا له بالمدينة عند يهودي وأخذ منه شعيرا لأهله ولقد سمعته يقول ما أمسى عند آل محمد صاع بر ولا صاع حب وإن عنده لتسع نسوة . رواه البخاري
حضور ﷺ کی معاشی زندگی پر قرض کا سایہ
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور ایسی چربی لے کر آئے جو زیادہ دن رکھی رہنے کی وجہ سے بدبو دار ہوگئی تھی۔ نیز حضرت انس ؓ ہی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک مرتبہ) اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر اس سے اپنے اہل بیت کے لئے کچھ جو لئے۔ حضرت انس ؓ سے روایت کرنے والے نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے حضرت انس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محمد ﷺ کے اہل بیت کی ایسی کوئی شام نہیں ہوتی تھی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا کوئی اور غلہ رہتا ہو جب کہ حضور ﷺ کے نو بیویاں تھیں۔ (بخاری)

تشریح
روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حضور ﷺ نے اپنے اہل بیت کے لئے کسی رات میں آنے والے دن کے لئے کسی طرح کا غلہ رکھ چھوڑا ہو باوجودیکہ آپ ﷺ کے نو بیویاں تھیں اور ان کی غذائی ضروریات کے لئے تھوڑا بہت غلہ ہر وقت آپ ﷺ کے یہاں رہنا چاہئے تھا۔ جہاں تک ایک یہودی سے حضور ﷺ کے قرض لینے کی بات ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپ ﷺ کسی مسلمان سے قرض لیتے تو مسلمان پر آپ ﷺ کا حال ظاہر ہوتا اور وہ آپ ﷺ کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے جب کہ آپ ﷺ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ ﷺ کی ضروریات زندگی کا بار مسلمانوں کے کاندھوں پر پڑے اور وہ خواہ خوشی یا کسی گرانی کے ساتھ اور شرم حضوری میں آپ ﷺ کو کچھ دیں۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ حضور ﷺ کا کسی مسلمان کی بجائے ایک یہودی سے قرض لینا دراصل اس بات سے انتہائی تنزہ اور کامل احتیاط کے پیش نظر تھا کہ حضور ﷺ اپنی امت کے لوگوں سے کسی اجر و معاوضہ کے طلب گار ہوں خواہ وہ اجر و معاوضہ کے اعتبار سے نہ ہو بلکہ محض صورۃً ہو جیسا کہ مثلاً قرض کی صورت، کہ اگر آپ ﷺ کسی مسلمان سے قرض لیتے تو اس پر اجر و معاوضہ کا اطلاق نہ ہوتا، مگر ممکن تھا کہ کسی نہ کسی درجہ میں نفع اٹھانے کی وجہ سے اس پر بھی صورتاً اجر و معاوضہ کا اطلاق ہوجاتا، اس لئے آپ ﷺ احتیاطا اس کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی مسلمان سے قرض ہی کی صورت میں کوئی مالی فائدہ حاصل کریں، چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (قل لا اسألکم علیہ من اجر ان اجری الا علی اللہ ) حضور ﷺ کے اس کامل احتیاط کی ایک نظیر ہمارے امام، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی زندگی میں بھی ملتی ہے، چناچہ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کی دیوار کے سایہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے جس پر ان کا کوئی قرض ہوتا تھا اور ان کی یہ احتیاط اس حدیث کے پیش نظر ہوتی تھی کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا (یعنی جو بھی قرض کوئی منفعت کھینچ کر لائے وہ سود ہے)۔ مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں ایک اشکال واضح ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بعض صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کے بقدر کفایت لازمی ضروریات کی بعض چیزیں ایک سال کے لئے اکٹھا بھروا کر رکھ دی تھیں، جب کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس سے اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے؟ اس کا جواب علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ شروع میں بہت کافی عرصہ تک، جب کہ آپ ﷺ کی معاشی زندگی پر فقر کا زیادہ غلبہ تھا آپ ﷺ اس معمول پر قائم تھے کہ کبھی کسی چیز کا ایک دن کے لئے بھی ذخیرہ نہیں کیا، جس دن جو کچھ میسر ہوگیا وہ اس دن کی غذائی ضروریات میں کام آگیا، اگلے دن کے لئے قناعت و توکل کے علاوہ کچھ پاس نہیں رہا، ہاں بعد میں جب معاشی حالت کچھ بہتر ہوئی اور آمدنی میں کچھ وسعت ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرت کے لئے ایک سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ کہ جو حد کفایت سے متجاوز نہیں تھا، اکٹھا بھروا دیا تھا۔ بعض حضرات نے ان دونوں طرح روایتوں میں اس طور پر مطابقت پیدا کی ہے کہ اٰل محمد میں لفظ آل زیادہ ہے جیسا کہ اہل عرب کے اسلوب کلام میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ (آل فلاں) بول کر اس کے لفظی معنی ( فلاں کے اہل بیت) کے بجائے صرف اس فلاں کی ذات کو مراد لیتے ہیں مثلاً اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ آل زید (یعنی زید کے گھر والوں) کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں تو اس جملہ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خاص طور پر زید کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ بات بعید از حقیقت نہیں ہوسکتی کہ کبھی بھی دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ نہ بھرنے یا اگلے دن کے لئے غلہ وغیرہ جمع نہ رکھنے کی بات خاص طور سے آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک سے تعلق رکھتی ہو یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خود آپ ﷺ نے مسلسل دو دن تک پیٹ بھر کر نہ کھایا ہو یا خاص اپنی ذات کے واسطے آنے والے ایک آدھ دن کے لئے رکھ چھوڑا ہو، ہاں اگر آپ ﷺ نے کبھی کبھار ایسا کیا ہو کہ اپنی ازواج مطہرات کے لئے کچھ دنوں یا ایک آدھ سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ وغیرہ بھروا کر رکھ دیا ہو تو یہ اس بات کے منافی نہیں ہے۔
Top