مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5127
وعن عائشة قالت ما شبع آل محمد من خبر الشعير يومين متتابعين حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم . متفق عليه
اہل بیت نبوی ﷺ کے فقر کی مثال
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد ﷺ کے اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات اور متعلقین) نے دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ بھرا ہو (چہ جائیکہ گیہوں کی روٹی سے) یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے (بخاری ومسلم)

تشریح
دو روز مسلسل سے یہ واضح ہوا کہ حضور ﷺ اور آپ کے اہل بیت کا معمول یہی تھا کہ اگر ایک دن پیٹ بھر کر کھایا تو دوسرے دن بھوکے رہے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ حضور ﷺ نے خوشحالی و ترفہ کی زندگی پر فقر و افلاس کی زندگی کو ترجیح دی تھی اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو دنیا بھر کے خزانوں کی پیش کش ہوئی اور حکم ہوا اگر آپ ﷺ کہیں تو مکہ کے پہاڑوں کو آپ ﷺ کے لئے سونے میں تبدیل کردیا جائے تو حضور ﷺ نے دنیا بھر کے خزانوں اور سونے کے پہاڑوں کو تبدیل کرنے کے بجائے فقر اور تنگدستی ہی کو اختیار کیا اور فرمایا کہ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھروں اور ایک دن بھوکا رہوں، تاکہ جس دن پیٹ بھروں اس دن اللہ کا شکر ادا کروں اور جس دن بھوکا رہوں اس دن صبر کروں۔ مذکورہ بالا حدیث سے بعض لوگوں کے اس قول کی تردید ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں غنی و مالدار ہوگئے تھے، کیونکہ اگر حضور ﷺ اپنی آخری عمر میں واقعتا غنی ہوگئے تھے تو پھر حضرت عائشہ ؓ کے اس کہنے کے کیا معنی ہوں گے کہ حضور ﷺ کے اہل بیت کا حضور ﷺ کی وفات تک یہی معمول رہا کہ انہوں نے کبھی مسلسل دو دن تک جو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا؟ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آخری زمانہ نبوی میں اسلام کو طاقت اور غلبہ ملا اور مجاہدین اسلام نے مختلف علاقوں کو فتح کیا تو اس صورت میں مال غنیمت کا مقررہ حصہ حضور ﷺ کو بھی ملا اور تھوڑا بہت مال آپ ﷺ کے پاس آتارہا مگر روایات صحیحہ شاہد ہیں کہ حضور ﷺ اس مال کو بھی اپنے پاس کبھی نہیں رکھا، بلکہ جس طرح آتا اسی طرح اس کو اپنے پوردگار کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کردیتے اور خود ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ رہ جاتے، البتہ دل کا غنا اور بڑھ جاتا، حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی حالت یہ تھی کہ مسلسل کئی کئی راتیں بھوک میں گزار دیتے تھے حضور ﷺ اور اہل بیت کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا تھا اور وقتا فوقتا کھانا میسر ہونے کی صورت میں بھی آپ ﷺ کے دسترخوان پر عام طور سے جس چیز کی روٹی ہوتی تھی وہ جو تھا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہمارے زمانہ کے غریب و نادار لوگوں اور فقراء میں سے کوئی بھی شخص اتنی سخت زندگی نہ تو گزاتا ہے اور نہ گزار سکتا ہے جتنی سخت زندگی حضور ﷺ گزارتے تھے اور یہ شان اس ذات گرامی کی تھی جو نہ صرف افضل البشر بلکہ افضل الانبیاء ہے جس کے چشم و ابرو کے اشارے پر دنیا بھر کی نعمتیں اس کے قدموں میں آسکتی تھیں۔ پس حضور ﷺ کے اس طرز زندگی میں غریب و نادار مسلمانوں کے لئے بڑی تسلی و اطمینان کا سامان پوشیدہ ہے۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ کا اس قدر فقر و افلاس کی زندگی گزارنا اور بھوک کی صعوبت کو برداشت کرنا کوئی اضطرار و مجبوری کے درجہ کی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اپنے قصد و اختیار کا نتیجہ تھا کہ آپ ﷺ چونکہ دنیا کی لذات اور نعمتوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے، قوت لایموت پر قناعت کرتے اور اپنی اور اپنے اہل بیت کی ضروریات پر فقراء و مساکین اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دے کر ایثار نفس پر عمل پیرا تھے اس لئے آپ ﷺ اتنی سخت زندگی گزارتے تھے۔
Top