مشکوٰۃ المصابیح - غصہ اور تکبر کا بیان - حدیث نمبر 4987
وعن جعفر بن محمد عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نظر في المرآة قال الحمد لله الذي حسن خلقي وخلقي وزان مني ما شان من غيري . رواه البيهقي في شعب الإيمان مرسلا
خوش خلقی کی اہمیت
اور حضرت جعفر بن محمد اپنے والد بزرگوار حضرت امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، رسول اللہ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہ اللہ کہ جس نے مجھ کو بہترین تخلیق سے نوازا میرے اخلاق و کردار کو اچھا بنایا اور مجھ میں ان چیزوں کو آراستہ جو میرے عیب و نقصان کا باعث ہیں، اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض آدمیوں کی جسمانی تخلیق میں کوئی عیب و نقصان ہوتا ہے کہ مثلا کوئی شخص ایک ہاتھ سے یا ایک آنکھ سے محروم ہوتا ہے یا کسی شخص کو کوئی ٹانگ ٹیڑھی ہوتی ہے یا کوئی اور عضو ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ نے مجھ میں کوئی جسمانی عیب نقصان نہیں رکھا بلکہ مجھ کو تمام عیوب سے محفوظ رکھا ملا علی قاری کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے نقصان و عیب عام ہیں کہ اس کا تعلق خواہ جسمانی تخلیق و پیدائش سے ہو یا اخلاق و کردار سے، بہرحال یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی بھی انسان کے مقابلہ میں نبی کریم ﷺ کی سیر و صورت بہت اعلی اور بہت خوب تھی اور جیسا کہ طیبی نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث گویا نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد، بعثت لاتیمم۔۔۔۔۔ کی وضاحت بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اپنے حسن و صورت و حسن سیرت پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور اس کی حمد وثناء کرنا، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس حمد و شکر کی طرح ہے جس کو قرآن میں اللہ نے یوں فرمایا آیت (ولقد اٰتینا داؤد)۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔ یعنی بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم سے مالا مال کیا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے مومن بندوں میں سے اکثر فضیلت عطا فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آئینہ دیکھنا مستحب ہے اور اپنے حسن و صورت اور حسن سیرت پر اللہ کی حمد وثناء کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ دونوں نعمتین اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں لہذا ان پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے رہی یہ بات کہ ظاہری حسن و خوبصورتی ایک ایسی چیز ہے جس کو آئینہ میں دیکھا جاسکتا ہے لہذا آئینہ دیکھ کر اس پر شکر ادا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کے ساتھ حسن سیرت یا حسن خلق کا ذکر سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ ایک پوشیدہ چیز ہے جس کا آئینہ میں دیکھا جانا ناممکن ہی نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بیشک حسن سیرت کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے لیکن انسان کا ظاہر بہر حال اس کے باطن کی غمازی کرتا ہے اور کسی دوسرے کے بارے میں بات چاہے صحیح نہ ہو لیکن رسول اللہ پر یہ بات ضرور صادق آتی ہے کہ حسن صورت سیرت کا ایک جلی عنوان ہوتا ہے جس کو دیکھ کر باطن کے احوال کا ادراک کیا جاسکتا ہے لہذا اس منابست سے حضور نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت کو بھی ذکر فرمایا اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ کیا نبی کریم ﷺ کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی اتباع میں آئینہ دیکھ کر مذکورہ طرح سے حمد وثناء کریں یا اس طرح حمد وثناء کرنا صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ وہ دعا پڑھیں جو آگے آنے والے حدیث میں نقل کی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں حمد وثناء اور شکر جو الفاظ مذکو رہیں ان کو ہر مومن پڑھ سکتا ہے کیونکہ انسان اس اعتبار سے کہ وہ اچھی صورت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ اور وہ صاحب الایمان ہے بلاشک و شبہ اللہ کی مخلوق کامل اور دین و اخلاق کے اوصاف سے مزین ہونا ہوتا ہے تاہم بعض حضرات نے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حمد وثناء اور شکر کے مذکورہ الفاظ اپنی ذات کے تعلق سے فرمائے ہوئے تھے اور ظاہر ہے کہ حسن صورت اور حسن سیرت کا وصف جو کمال و نہایت کے ساتھ حضور کی ذات میں تھا وہ کسی دوسرے میں نہیں ہوسکتا اس لئے کسی دوسرے کے لئے ان الفاظ کو استعمال کرنا موزوں نہیں ہوگا امت کے بعض افراد کے اعتبار سے اس طرح کے الفاظ کے استعمال کو جائز نہ کہا جائے لیکن امت کے لئے بہتر یہی ہے کہ اسی دعا کو اختیار کیا جائے جو اگلی حدیث میں منقول ہے۔
Top