مشکوٰۃ المصابیح - نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان - حدیث نمبر 4959
وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل ليكون من أهل الصلاة والصوم والزكاة والحج والعمرة . حتى ذكر سهام الخير كلها وما يجزى يوم القيامة إلا بقدر عقله
قیامت کے دن عقل کے مطابق جزاء ملے گی۔
اور حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک شخص جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہو، روزہ رکھنے والوں میں سے ہو زکوٰۃ دینے والوں میں سے ہو، حج وعمرہ کرنے والوں میں سے ہو یہاں تک کہ آپ نے اسی طرح نیکی بھلائی سے متعلق ساری بڑی بڑی چیزوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ لیکن وہ قیامت کے دن اپنی عقل کے مطابق جزاء پائے گا۔

تشریح
ان حدیثوں میں عقل سے مراد وہ اعلی جوہر ہے جس کے ذریعہ انسان اشیاء و اسباب کی حقیقت کا ادراک کرتا ہے دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور برائیوں کو معلوم کرتا ہے نیکی اور بدی کے درمیان فرق و امتیاز کرتا ہے نفس کی آفات اور گمراہیوں سے اجتناب کرتا ہے نیک راہ روش اختیار کرتا ہے اللہ کا قرب و اتصال حاصل کرتا ہے، بعض عارفین کے کلام میں جس عقل عماد کا ذکر آتا ہے اس سے یہی عقل مراد ہے یہ اعلی جوہر جس شخص میں جس نوعیت کا ہوتا ہے اس کے اندر مذکورہ بالا اوصاف بھی اس کے تناسب سے ہوتے ہیں اسی لئے فرمایا گیا کہ جس شخص میں جتنی عقل ہوگی وہ اس کو قیامت کے دن اسی کے مطابق جزاء دی جائے گی کیونکہ اللہ کی طرف سے جزاء و انعام کا مدار محض عبادات وطاعت یا عبادات و طاعات کی مقدار پر نہیں ہوگا بلکہ عبادت کے حسن و کمال پر ہوگا اور ظاہر ہے کہ عبادات و طاعات میں حسن کمال کیفیت اسی عقل سے متعلق ہے۔ اسی موقع پر علماء اس بارے میں بحث و اختلاف کرتے ہیں کہ آیا علم افضل ہے کہ یا عقل، چناچہ بعض حضرات نے علم کو افضل قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے عقل کو لیکن اگر یہ کہا جائے کہ علم کا معنوی اطلاق بھی قوت تمیز معرفت پر ہوتا ہے جو عقل کی روشنی میں پائی جاتی ہے تو اس صورت میں بحث اختلاف کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اس اعتبار سے یہ بات البتہ کہی جاسکتی ہے کہ علم عقل کو عمل و عبادت پر فضیلت حاصل ہے چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ صاحب عقل عالم کی ایک رکعت نماز دوسرے لوگوں کی ایک ہزار رکعتوں سے افضل قرار پائے گی۔
Top